• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 6534

    عنوان:

    میں ممبئی میں رہتا ہوں، لیکن میرا وطن پرولیا (مغربی بنگال) ہے۔ کچھ سال پہلے میں نے ممبئی میں ایک گھر خریدا تھا اور بعد میں اسی محلہ میں ایک اور گھر اپنی بیوی کے نام سے خریدا تھا۔ یہ محلہ گورنمنٹ کا بنایا ہوا ہے جو چالیس سال پہلے لوگوں کو لیز پر دیاگیا تھایہاں پر گھر خریدنے سے کورٹ کا پیپرلے جاکر ایک سرکاری دفتر (جس کا نام مہاڈا)میں جمع کرنا پڑتا ہے اور وہاں کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروانا پڑتا ہے۔ بعد میں وہاں نیا مکان مالک کے نام پر کرایہ جمع ہوتا ہے اور اس کی رسید ملتی ہے۔ لیکن یہاں کا قاعدہ ہے کہ ایک آدمی دو گھر نہیں لے سکتا ہے یہاں تک کہ میاں اور بیوی دو الگ الگ گھر نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے میری بیوی کے نام پر نہیں ہوپایا۔ پھر میں نے ماہرین سے مشورہ کرکے اپنی بیوی سے میرے والد کے نام افیڈیوٹ لکھوایا اور اس کا گھر(یعنی بیوی کا گھر) میرے والد کے نام کرکے مہاڈا میں والد کے نام کروا لیا۔ یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے جس دن والد کے نام کروایا اس کے دوسرے دن ہی میں نے والد سے اپنی بیوی کے نام پاور آف اٹارنی لکھا کر لیا تھا۔ ابھی اس گھر کو بیچ دیا اور میں نے وہ رقم لے لی۔ میرے والد نے مجھے رقم دے دی۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں،میرے باقی بھائی لوگ پرولیا میں رہتے ہیں اور سب الگ الگ رہتے ہیں۔ اس گھر کو صرف میں نے ہی خریدا تھا اور یہ میری ملکیت میں تھا۔ میرے والد کا بھی اس میں گوئی پیسہ لگا ہوا نہیں تھا وہ اس بات کو مانتے بھی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس گھر کا جو پیسہ ملا ہے اس میں میرے بھائی لوگ حصہ مانگتے ہیں۔ تو کیا اس میں ان لوگوں کا حصہ ہے؟

    سوال:

    میں ممبئی میں رہتا ہوں، لیکن میرا وطن پرولیا (مغربی بنگال) ہے۔ کچھ سال پہلے میں نے ممبئی میں ایک گھر خریدا تھا اور بعد میں اسی محلہ میں ایک اور گھر اپنی بیوی کے نام سے خریدا تھا۔ یہ محلہ گورنمنٹ کا بنایا ہوا ہے جو چالیس سال پہلے لوگوں کو لیز پر دیاگیا تھایہاں پر گھر خریدنے سے کورٹ کا پیپرلے جاکر ایک سرکاری دفتر (جس کا نام مہاڈا)میں جمع کرنا پڑتا ہے اور وہاں کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروانا پڑتا ہے۔ بعد میں وہاں نیا مکان مالک کے نام پر کرایہ جمع ہوتا ہے اور اس کی رسید ملتی ہے۔ لیکن یہاں کا قاعدہ ہے کہ ایک آدمی دو گھر نہیں لے سکتا ہے یہاں تک کہ میاں اور بیوی دو الگ الگ گھر نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے میری بیوی کے نام پر نہیں ہوپایا۔ پھر میں نے ماہرین سے مشورہ کرکے اپنی بیوی سے میرے والد کے نام افیڈیوٹ لکھوایا اور اس کا گھر(یعنی بیوی کا گھر) میرے والد کے نام کرکے مہاڈا میں والد کے نام کروا لیا۔ یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے جس دن والد کے نام کروایا اس کے دوسرے دن ہی میں نے والد سے اپنی بیوی کے نام پاور آف اٹارنی لکھا کر لیا تھا۔ ابھی اس گھر کو بیچ دیا اور میں نے وہ رقم لے لی۔ میرے والد نے مجھے رقم دے دی۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں،میرے باقی بھائی لوگ پرولیا میں رہتے ہیں اور سب الگ الگ رہتے ہیں۔ اس گھر کو صرف میں نے ہی خریدا تھا اور یہ میری ملکیت میں تھا۔ میرے والد کا بھی اس میں گوئی پیسہ لگا ہوا نہیں تھا وہ اس بات کو مانتے بھی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس گھر کا جو پیسہ ملا ہے اس میں میرے بھائی لوگ حصہ مانگتے ہیں۔ تو کیا اس میں ان لوگوں کا حصہ ہے؟

    جواب نمبر: 6534

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1609=1228/ ھ

     

    اس گھر میں بھائی لوگوں کا کچھ حصہ نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند