معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 64942
جواب نمبر: 64942
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 674-690/N=7/1437 شریعت نے وارثین کے لیے وراثت رکھی ہے، وصیت نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: إن اللہ قد أعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیة لوارث، یعنی: اللہ تعالی نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے، پس کسی وارث کے لیے وصیت نہیں ہے، اور ایک روایت میں ہے: البتہ اگر (موصی کے انتقال کے بعد) تمام (عاقل وبالغ) ورثہ بخوشی راضی ہوں تو وارث کے لیے وصیت درست ہوتی ہے (مشکوة شریف ص ۲۶۵ بحوالہ: سنن ابو داود وسنن ابن ماجہ وغیرہ) ، اور اگر کچھ ورثہ راضی ہوں اور کچھ راضی نہ ہوں، یا کچھ غیر عاقل یا غیر بالغ ہوں تو اجازت دینے والے عاقل وبالغ ورثہ کے حصہ کے بقدر وصیت درست ہوتی ہے، باقی میں نہیں (مجمع الانہر ۴: ۴۱۹ مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت) ۔ اورآدمی کی اولاد اس کے وارثین میں شامل ہوتی ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں وصیت کرنے والی عورت نے اپنی بیٹی کے لیے اپنے مکمل حصہ کی جو وصیت کی ہے، یہ وارث کے لیے وصیت ہے، پس اس وصیت کا حکم حسب تفصیل بالا ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند