• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 6371

    عنوان:

    میں انتیس سال کا ہوں اورمیرا بھائی چھبیس سال کا ہے۔ میری والدہ کا طلاق 1984 میں ہوا۔ میرے والدصاحب نے دوسری شادی کی اور ا س شادی سے ان کو ایک لڑکا بھی ہوا۔ لیکن میری والدہ نے شادی نہیں کی۔ ہم دونوں بھائی 1984سے ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ میرا اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے والد کی جائیداد میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟

    سوال:

    میں انتیس سال کا ہوں اورمیرا بھائی چھبیس سال کا ہے۔ میری والدہ کا طلاق 1984 میں ہوا۔ میرے والدصاحب نے دوسری شادی کی اور ا س شادی سے ان کو ایک لڑکا بھی ہوا۔ لیکن میری والدہ نے شادی نہیں کی۔ ہم دونوں بھائی 1984سے ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ میرا اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے والد کی جائیداد میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟

    جواب نمبر: 6371

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 2460=1028/ د

     

    آپ کے والد کی زندگی میں ان کی مملوکہ اشیاء وجائیداد میں آپ لوگوں (کسی بھی اولاد) کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، والد تنہا اپنی جائیداد کے مالک ہیں البتہ عطیہ اور ہبہ میں انھیں خیال کرنا چاہیے کہ جتنا دوسری بیوی کے لڑکے پر خرچ کررہے ہیں، اسی حساب سے آپ دونوں بھائیوں کو بھی دیدیا کریں۔

    والد کے انتقال کے بعد جو ان کے ورثا شرعی ہوں گے ان کو حصہ شرعی ملے گا، ان کے ورثا شرعی آپ دونوں بھائی دوسری بیوی کا لڑکا، دوسری بیوی ہوں گے۔ اگر والد کے والدن باحیات نہ ہوں اور مذکورہ لوگ ہی وارث شرعی ہوں تو مرحوم کی جملہ جائیداد و اشیاء مملوکہ میں حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد چوبیس حصے کیے جائیں گے تین حصہ ان کی زوجہ ثانیہ کو، 7-7 حصہ آپ دونوں بھائیوں کو اور سات ہی حصہ دوسری بیوی کے لڑکے کو ملے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند