• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 62661

    عنوان: کوئی سنی حنفی شخص اپنی جائداد اپنی اولاد میں کیسے کرے گا؟

    سوال: براہ کرم، بتائیں کہ کوئی سنی حنفی شخص اپنی جائداد اپنی اولاد میں کیسے کرے گا؟

    جواب نمبر: 62661

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 101-101/Sd=3/1437-U زندگی میں جائداد کی تقسیم شرعاً وراثت کی تقسیم نہیں کہلاتی ہے، شریعت کی رو سے اس کو ہبہ کہتے ہیں، جس میں آدمی کو مکمل اختیار ہے کہ جس کو چاہے جتنا دے؛ البتہ زندگی میں اولاد کو برابر دینا مستحب ہے، ہاں کسی کو اُس کی ضرورت یا زیادہ نیکی یا دینی مشغلے کی وجہ سے کچھ زیادہ دینے میں بھی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ دوسری اولاد کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو، لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے والد کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی زندگی میں دیگر اولاد کے مقابلے میں کچھ زیادہ دیدیں بشرطیکہ دوسری اولاد کو کم دے کر نقصان پہنچانے کی نیت نہ ہو، تاہم اُن کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زندگی میں ساری اولاد بیٹوں اور بیٹیوں کوبرابر برابر حصہ دیں۔ عن النعمان بن بشیررضي اللّٰہ عنہ أن أباہ أتی بہ الی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: اني نحلتُ ابني ہذا غلاماً، فقال: أکل ولدک نحلت مثلہ؟ قال: لا، قال: فارجعہ۔ (صحیح البخاري، کتاب الہبة، باب الہبة للولد ) وفی صحیح مسلم نقلاً عنہ اّن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ألک بنون سواہ ؟ قال: نعم، قال: فکلہم أعطیت مثل ہذا ؟ قال: لا، قال: فلا أشہدُ علی جور۔ (الصحیح لمسلم: ۲/۳۷، کتاب الہبات، باب کراہة تفضیل بعض الأولاد في الہبة) قال في الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ في الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض، عن أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل في الدین، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار، وان قصد بہ الاضرار، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: ۴/۳۹۱، کتاب الہبة، الباب السادس) قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالی نقلاً عن الامام أحمد رحمہا اللّٰہ تعالی: یجوز التفاضل ان کان لہ سبب کأن یحتاج الولد لزمانتہ أو نحو ذلک دون الباقین۔۔۔ ونقل عن الامام أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی تجب التسویة ان قصد بالتفضیل الاضرار، ونقل عن الجمہور: أن التسویة مستحبة، ، ، الخ۔ (فتح الباري: ۵/۲۱۴، باب الہبة للولد، ط: دار المعرفة، بیروت، کذا في شرح الطیبي علی مشکاة المصابیح: ۶/۱۸۱، کتاب البیوع، باب استحباب التسویة بین الأولاد في الہبة، والدر المختار مع رد المحتار: ۸/۴۳۴، کتاب الہبة، ط: دار الکتاب، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند