• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 62428

    عنوان: کیا کوئی اپنی زندگی میں اپنی پوری جائداد ہبہ کرسکتاہے؟

    سوال: تین سال پہلے میرے والد کا انتقال ہوگیاہے، ان کی ایک بیوی،ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، (ایک بیٹی پہلی بیوی سے ہے)۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں جب کہ صحتمند تھے اور دماغ بھی صحیح سالم تھا تو کئی جائداد اور حصے میری سوتیلی بہن کو ہبہ کیا تھا ، نیز والد صاحب نے مجھے اور میری سگی بہن کو بھی بقیہ جائداد اور حصے ہبہ کیا تھا، جائداد کو نصف نصف فلیٹ میں نامزد کرکے ہبہ کیا تھا اورحصے میں انہوں نے دو حصے مجھے اور ایک حصہ بہن کو دیا تھا، ان کی اکثر جائداد ہم تینوں کے درمیان ہبہ میں ہی ختم ہوگئی، انہوں نے ایک وصیت بھی کی تھی جس میں انہوں نے ان ہبہ کو بھی ذکر کیا ہے جو انہوں نے ہمیں دیا تھا۔ اب ان کے انتقال کے بعد کچھ اور جائداد ہیں جن کے بارے میں وصیت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ (۱)میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اپنی زندگی میں اپنی پوری جائداد ہبہ کرسکتاہے؟ (۲) کیاہبہ شرعی تناسب سے دیا جانا چاہئے اور یا نصف نصف ہونا چاہئے یا مرضی و منشاء کے مطابق ہونا چاہئے؟ (۳) بقیہ جائداد کے بارے میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے دوسری بہن (سوتیلی بہن) کو دے سکتے ہیں جن کو احساس ہے کہ والد صاحب ان کو اپنی زندگی میں زیادہ ہبہ نہیں دیا؟

    جواب نمبر: 62428

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1126-210/D=01/1438

    (۱) جی ہاں مرض وفات سے پہلے صحت کی حالت میں پوری جائیداد ہبہ کرسکتا ہے البتہ کسی حق دار وارث کو محروم کرنے کے لیے دوسرے کو ہبہ کرنا موجب گناہ ہے۔
    (۲) ہبہ کرنے میں بہتر ہے کہ سب اولاد لڑکے لڑکی کوبرابر برابر دیا جائے لیکن اگر وراثت کے تناسب سے یعنی لڑکے کو دو حصہ اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور کسی خاص وجہ سے مثلاً کوئی اولاد زیادہ غریب، یا دین دار یا خدمت گذار ہے اس لیے اسے زیادہ دیدے یہ بھی جائز ہے۔ سوتیلی بہن یا آپ حقیقی بہن بھائی کو والد صاحب جو کچھ زندگی میں ہبہ کرچکے اگر ہر ایک کا حصہ جدا کرکے اسے سونپ کر قابض و دخیل بنا دیا تھا تو ہر شخص اپنے اپنے حصہ کا مالک ہو گیا۔
    (۳) بقیہ جائیداد جو کسی کو ہبہ نہیں کی گئی ہے وہ مرحوم کا ترکہ ہوگیا جو ان کے ورثاء شرعی کے درمیان حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا، اگر مرحوم کے ورثاء شرعی میں ایک بیوی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں تو کل ترکہ ۳۲/ حصوں میں منقسم ہوکر چار حصے بیوی کو چودہ حصے بیٹے کو سات سات حصے دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔
    کل حصے    =    ۳۲
    -------------------------
    بیوی     =    ۴
    بیٹا     =    ۱۴
    بیٹی     =    ۷
    بیٹی     =    ۷
    نوٹ: اگر سوتیلی بیٹی ان دو بیٹیوں کے علاوہ ہے تو یہ تقسیم کالعدم ہوگی اس کی صراحت کرکے دوبارہ حکم معلوم کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند