معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 62428
جواب نمبر: 62428
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1126-210/D=01/1438
(۱) جی ہاں مرض وفات سے پہلے صحت کی حالت میں پوری جائیداد ہبہ کرسکتا ہے البتہ کسی حق دار وارث کو محروم کرنے کے لیے دوسرے کو ہبہ کرنا موجب گناہ ہے۔
(۲) ہبہ کرنے میں بہتر ہے کہ سب اولاد لڑکے لڑکی کوبرابر برابر دیا جائے لیکن اگر وراثت کے تناسب سے یعنی لڑکے کو دو حصہ اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور کسی خاص وجہ سے مثلاً کوئی اولاد زیادہ غریب، یا دین دار یا خدمت گذار ہے اس لیے اسے زیادہ دیدے یہ بھی جائز ہے۔ سوتیلی بہن یا آپ حقیقی بہن بھائی کو والد صاحب جو کچھ زندگی میں ہبہ کرچکے اگر ہر ایک کا حصہ جدا کرکے اسے سونپ کر قابض و دخیل بنا دیا تھا تو ہر شخص اپنے اپنے حصہ کا مالک ہو گیا۔
(۳) بقیہ جائیداد جو کسی کو ہبہ نہیں کی گئی ہے وہ مرحوم کا ترکہ ہوگیا جو ان کے ورثاء شرعی کے درمیان حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا، اگر مرحوم کے ورثاء شرعی میں ایک بیوی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں تو کل ترکہ ۳۲/ حصوں میں منقسم ہوکر چار حصے بیوی کو چودہ حصے بیٹے کو سات سات حصے دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔
کل حصے = ۳۲
-------------------------
بیوی = ۴
بیٹا = ۱۴
بیٹی = ۷
بیٹی = ۷
نوٹ: اگر سوتیلی بیٹی ان دو بیٹیوں کے علاوہ ہے تو یہ تقسیم کالعدم ہوگی اس کی صراحت کرکے دوبارہ حکم معلوم کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند