• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 61395

    عنوان: جائداد تقسیم ہونے پر دوسری بیوی ، تین بیٹے اور چھ بیٹیوں کو کتنا حصہ ملے گا؟

    سوال: ابراہیم صاحب قریشی کا فروری 2015میں انتقال ہوگیا ، پہلی بیوی سے اس کے صرف دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، سبھی حیات ہیں اور شادی شدہ ہیں، بیس سال پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ انہوں نے دوسری شادی کی تھی جس سے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں، سبھی حیات ہیں، اور سبھی غیر شادی شدہ ہیں،ابراہیم کے پاس ایک گھر اور دو دکانیں جس میں دوسری بیوی ، اس کے بیٹے اور تین بیٹیاں رہتی ہیں اور ان کے قبضہ میں ہیں، دوسری بیوی اور اس کا بیٹا تین بیٹیوں کی شادی کے بعد جائداد کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ (۱) سوال یہ ہے کہ تینوں بیٹیوں کی شادی سے پہلے جائداد کو تقیسم نہ کرنے کا فیصلہ درست ہے؟ (۲) جائداد تقسیم ہونے پر دوسری بیوی ، تین بیٹے اور چھ بیٹیوں کو کتنا حصہ ملے گا؟

    جواب نمبر: 61395

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1214-970/D=12/1436-U مرحوم ابراہیم کے انتقال کے بعد ان کا کل ترکہ حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد یعنی (اگر مرحوم پر قرض رہا ہو تو اولاً اس کی ادائیگی کی جائے پھر انھوں نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو مابقی کے 1/3(تہائی) میں وصیت کی تنفیذ کی جائے پھر جو کچھ بچے) اس کے چھیانوے (96) حصے کیے جائیں گے، بارہ (12)حصے موجودہ بیوی کو چودہ چودہ (14-14)حصے تینوں بیٹوں کو اور سات سات (7-7)حصے ہرہر لڑکی کو دیئے جائیں گے۔ کل ترکہ = 96 حصے ============== بیوی = 12 بیٹا = 14 بیٹا = 14 بیٹا = 14 بیٹی = 7 بیٹی = 7 بیٹی = 7 بیٹی = 7 بیٹی = 7 بیٹی = 7 --------------------------- ٹوٹل = 96 نوٹ: ترکہ کی جملہ اشیاء اور مکان ودکان اسی کے مطابق تقسیم کرلی جائے۔ ترکہ کی تقسیم جلد سے جلد کرلینی چاہیے تاخیر کرنے میں اور بھی نزاع اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، لیکن سب ورثا اگر باہمی رضامندی سے تقسیم کو موٴخر کردیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ شادی ہوجانے کی مدت مقرر کرنا مجہول ہے معلوم نہیں اس میں کتنے سال لگیں، لہٰذا مدت مقرر کرکے اس تک موٴخر کریں، پھر ضرورت محسوس ہو تو دوبارہ باہمی مشورہ سے توسیع کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند