• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 61097

    عنوان: میرے والد صاحب کو انتقال ہوئے دس سال کا عرصہ ہوگیا ، میرے والد کے دو آم کے باغات ہیں، جن کی سالانہ آمدنی کبھی پچاس ہزار روپئے اور کبھی تیس ہزار روپئے ، کبھی اسی ہزار روپئے آتی ہے جو کہ پوری پوری ہماری والدہ کے علاج کے علاوہ گھر کے کچھ کاموں میں خرچ ہوتی تھی۔ ابھی کچھ سالوں سے ایسا ہورہا ہے کہ امی جان کی آڑ لے کر کچھ پیسے ان کو دیتے ہیں اور کچھ پیسے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ، ہم تین بھائی، ایک بہن اور والدہ ہیں، اس صورت میں جو آم کے باغات کی آمدنی ہے اس کی تقسیم کس صورت میں کی جائے؟ والدہ کا کتنا؟ اور تین بھائی اور ایک بہن میں کتنا حصہ کرنا پڑے گا؟

    سوال: میرے والد صاحب کو انتقال ہوئے دس سال کا عرصہ ہوگیا ، میرے والد کے دو آم کے باغات ہیں، جن کی سالانہ آمدنی کبھی پچاس ہزار روپئے اور کبھی تیس ہزار روپئے ، کبھی اسی ہزار روپئے آتی ہے جو کہ پوری پوری ہماری والدہ کے علاج کے علاوہ گھر کے کچھ کاموں میں خرچ ہوتی تھی۔ ابھی کچھ سالوں سے ایسا ہورہا ہے کہ امی جان کی آڑ لے کر کچھ پیسے ان کو دیتے ہیں اور کچھ پیسے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ، ہم تین بھائی، ایک بہن اور والدہ ہیں، اس صورت میں جو آم کے باغات کی آمدنی ہے اس کی تقسیم کس صورت میں کی جائے؟ والدہ کا کتنا؟ اور تین بھائی اور ایک بہن میں کتنا حصہ کرنا پڑے گا؟ براہ کرم، اس معاملے میں جو شرعی حکم ہے اس میں ہماری رہنمائی فرمائیں اور انتشار سے ہم بھائیوں کو بچائیں ۔ جزاک اللہ خیرا۔

    جواب نمبر: 61097

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 696-696/Sd=11/1436-U بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث وعدم موانع ارث مرحوم والد صاحب کا ترکہ بشمول آم کے دونوں باغات کل آٹھ حصوں میں تقسیم ہوگا جس میں سے آپ کی والدہ کو ایک حصہ، تینوں بھائیوں کو دو دو حصے اور ایک بہن کو ایک حصہ ملے گا، مذکورہ ورثاء اگر باغات کو باہم تقسیم نہیں کرنا چاہتے ہیں، توباغات کی آمدنی ان کے مابین مذکورہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند