• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 5537

    عنوان:

    گھر کے بٹوارے کا مسئلہ: (1) ہمارے سسر نے ہماری ساس کے انتقال کے بعددوسری شادی کرلی ہے، اور ہمارے سسر کے 7/لڑکیاں اور 2/ لڑکے ہیں۔ دو لڑکوں میں، چھوٹے لڑکے نے اپنی رضا اورخوشی سے گھر میں اپنا لینے سے انکار کردیا ہے۔ (2) آپ ہم کو شریعت کے حساب سے مہربانی کرکے اس مسئلے کا حل بتادیجئے۔(3) مکان والدہ (یعنی میری ساس) کے نام سے تھا جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ (4) شریعت کے حساب سے مکان کا مالک کون ہوگا؟ (5) کتنا کتنا حصہ کس میں اور کس کا ہوگا؟

    سوال:

    گھر کے بٹوارے کا مسئلہ: (1) ہمارے سسر نے ہماری ساس کے انتقال کے بعددوسری شادی کرلی ہے، اور ہمارے سسر کے 7/لڑکیاں اور 2/ لڑکے ہیں۔ دو لڑکوں میں، چھوٹے لڑکے نے اپنی رضا اورخوشی سے گھر میں اپنا لینے سے انکار کردیا ہے۔ (2) آپ ہم کو شریعت کے حساب سے مہربانی کرکے اس مسئلے کا حل بتادیجئے۔(3) مکان والدہ (یعنی میری ساس) کے نام سے تھا جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ (4) شریعت کے حساب سے مکان کا مالک کون ہوگا؟ (5) کتنا کتنا حصہ کس میں اور کس کا ہوگا؟

    جواب نمبر: 5537

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 219=219/ م

     

    مذکورہ مکان اگر مرحومہ نے خریدا تھا یا انھیں شوہر کی طرف سے بطور ہبہ ملا تھا یا کسی اور طریقے سے وہ اس کی مالک ہوئی تھیں، تو یہ مکان ان کی وفات کے بعد ان کا ترکہ ہے، جو ان کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا، ترکہ کل 44 حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں مرحومہ کے شوہر کے 11 حصے اور دونوں لڑکوں میں سے ہرایک کے فی کس 6 حصے اور لڑکیوں میں سے ہرایک کو فی کس 3 حصہ ملے گا، تقسیم میراث سے پہلے اگر کوئی وارث اپنا حصہ دوسرے کو ہبہ کرنا چاہے تو یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ تقسیم سے پہلے وہ ترکہ کا مالک نہیں ہوتا، لہٰذا اس کا تصرف بھی صحیح نہ ہوگا، ہاں میراث تقسیم ہونے کے بعد جب وہ اپنے حصہ پر قبضہ کرلے تو پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے ہبہ کردے اور اگر تمام ورثاء کو دینا چاہتا ہے تو چاہیے کہ ہرایک کو الگ الگ دے، مشترک ہبہ جائز نہیں وہبة المشاع لا یجوز (کذا في کتب الفقہ) ور اگر میراث سے پہلے ہی اپنا حق ورثاء کو دینا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ورثاء سے کچھ رقم لے کر اپنے حق وراثت سے دست بردار ہوجائے او ربدلے کی رقم چاہے خود رکھ لے چاہے ورثاء کو بطور ہبہ دے دے۔

    نوٹ: ترکہ کی مذکورہ تقسیم یہ فرض کرکے کی گئی ہے کہ مرحوم کے والدین اس سے پہلے ہی وفات پاچکے ہیں، لیکن اگر صورت اس کے برعکس رہی ہو کہ والدین یا ان میں سے کوئی ایک مرحومہ کی وفات کے وقت حیات رہا ہو، تو اس صورت میں پوری صورتِ حال لکھ کر دوبارہ سوال کریں اور اس جواب کو کالعدم سمجھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند