• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 4953

    عنوان:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سوال کے بارے میں، پانچ جزئیات ہیں۔ (۱) زید کی وفات ہوئی لاکھوں کی تجارت ہے، چند بیٹے باپ کے ساتھ کام کررہے ہیں ، دوسرے بیٹے اپنا کام علیحدہ کررہے ہیں۔ باپ کے انتقال کے دس سال بعد ترکہ تقسیم ہورہا ہے۔ تو باپ کی وفات کے وقت جو مال تھا اس حساب سے تقسیم ہوگا یا گزشتہ سالوں کے منافع کے ساتھ تقسیم ہوگا؟ (۲) اس زمانے میں عام طور پر ترکہ میں تاخیر ہوتی ہے، منفعت صرف متصرفین کی ہو تو دوسرے ورثاء کا بھاری نقصان ہے قصداً تاخیر کی جائے گی تو کیا حکم ہے؟ (۳)اگر منافع کی تقسیم ہو تو جن بیٹوں نے باپ کی وفات کے بعد تصرف کیا ہے ان کو حق محنت بطور اجرت دیا جائے گا یا نفع میں کمی بیشی کی جائے گی؟ (۴) نفع میں کمی بیشی کس بنیاد پر کی جائے گی، کیا شرکت مضاربت کے لحاظ سے تقسیم ہوسکتی ہے؟ (۵) اگر متصرف ورثاتقسیم ترکہ میں قصداً تاخیر کریں تو وہ غاصب قرار دئے جائیں گے، یا اس تصرف کو شرکت قرار دیا جاسکتا ہے؟ شرکت قرار دیا جائے تو کونسی شرکت ہوگی؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سوال کے بارے میں، پانچ جزئیات ہیں۔ (۱) زید کی وفات ہوئی لاکھوں کی تجارت ہے، چند بیٹے باپ کے ساتھ کام کررہے ہیں ، دوسرے بیٹے اپنا کام علیحدہ کررہے ہیں۔ باپ کے انتقال کے دس سال بعد ترکہ تقسیم ہورہا ہے۔ تو باپ کی وفات کے وقت جو مال تھا اس حساب سے تقسیم ہوگا یا گزشتہ سالوں کے منافع کے ساتھ تقسیم ہوگا؟ (۲) اس زمانے میں عام طور پر ترکہ میں تاخیر ہوتی ہے، منفعت صرف متصرفین کی ہو تو دوسرے ورثاء کا بھاری نقصان ہے قصداً تاخیر کی جائے گی تو کیا حکم ہے؟ (۳)اگر منافع کی تقسیم ہو تو جن بیٹوں نے باپ کی وفات کے بعد تصرف کیا ہے ان کو حق محنت بطور اجرت دیا جائے گا یا نفع میں کمی بیشی کی جائے گی؟ (۴) نفع میں کمی بیشی کس بنیاد پر کی جائے گی، کیا شرکت مضاربت کے لحاظ سے تقسیم ہوسکتی ہے؟ (۵) اگر متصرف ورثاتقسیم ترکہ میں قصداً تاخیر کریں تو وہ غاصب قرار دئے جائیں گے، یا اس تصرف کو شرکت قرار دیا جاسکتا ہے؟ شرکت قرار دیا جائے تو کونسی شرکت ہوگی؟

    جواب نمبر: 4953

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 522=567/ل

     

    شامی میں ہے: لو اجتمع اخوة یعملون فی ترکة أبیہم و نما المال فہو بینہم سویہ ولو اختلفوا فی العمل والرأی (شامی: ۶/۵۰۲ ط زکریا دیوبند) علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرکة فاسدہ میں اس جزئیہ کو نقل کیا ہے اور اس طرح کی شرکت سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس کو شرکاء کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اور شرح المجلہ میں ہے: وإذا أخذ الورثة مبلغاً من نقود الترکة قبل القسمة بدون إذن الآخرین وعمل فیہ و خسر کانت الخسارة علیہ کما إذا ربح لا یجوز لبقیة الورثة ان یقاسموالربح (شرح المجلة:۱/۶۱۰ رقم المادّہ ۱۰۹۰) پتہ چلا کہ اگر والد کی وفات کے بعد باتفاق شرکا اس ترکہ سے کام ہورہا ہے تو حاصل شدہ نفع ترکہ بن جائے گا اور حسب حصص شرعیہ اس کو ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اوراگر کوئی وارث دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر یا ان کے تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنے کے باوجود تصرف کرتا ہے تو نفع و نقصان خالص اسی کا ہوگا دیگر ورثاء اس میں شریک نہ ہوں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند