• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 4580

    عنوان:

    ایک آدمی کاانتقال ہوا۔ اس نے میراث میں دو لاکھ چھوڑا۔ میت کے ایک بیٹے نے کل میرات کی رقم پر قبضہ کرلیا اور باقی وارثوں کو کچھ بھی نہ دیا۔ اس نے پیسوں سے کاروبار کر کے ان پیسوں کو دس لاکھ کردیا ہے۔ اب یہ قابض بیٹا اپنے میت باپ کی میراث باقی وارثوں میں بھی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ پر میراث دو لاکھ کی تقسیم کرے یا دس لاکھ کی؟

    سوال:

    ایک آدمی کاانتقال ہوا۔ اس نے میراث میں دو لاکھ چھوڑا۔ میت کے ایک بیٹے نے کل میرات کی رقم پر قبضہ کرلیا اور باقی وارثوں کو کچھ بھی نہ دیا۔ اس نے پیسوں سے کاروبار کر کے ان پیسوں کو دس لاکھ کردیا ہے۔ اب یہ قابض بیٹا اپنے میت باپ کی میراث باقی وارثوں میں بھی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ پر میراث دو لاکھ کی تقسیم کرے یا دس لاکھ کی؟

    جواب نمبر: 4580

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 960=1116/ ب

     

    وراثت اس مال کے حساب سے تقسیم ہوگی جو مرتے وقت تھے (یعنی دولاکھ کے حساب سے) اور جس بیٹے نے تجارت کرکے کمایا ہے (تو اگر چہ اس کا قبضہ غیر شرعی تھا) وہ اس کی محنت ہے اوراسی کا ہے۔ وفي الہندیة : لو تصرَّف أحد الورثة في الترکة المشترکة و رَبِحَ فالربح للمتصرف وحدہ (ہندیہ ج: ۴، ص:۳۴۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند