• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 2927

    عنوان: کیا مرتد عورت اپنے باپ کی وراث ہوگی؟

    سوال:

    ایک عورت گھر والوں سے بغاوت کرکے گھر سے بھاگ جاتی ہے اورایک شادی شدہ ہندو کے گھر چلی جاتی ہے، اس ہندو کے دو بچے ہیں۔ وہ عورت اپنے آپ کو ہندو ہونے کا اعلان کرتی ہے، اپنے نام کے ساتھ ہندوانہ نام جوڑتی ہے، اور اسی مردسے اس کے دوبچے ہوتے ہیں اور وہ عورت ہندوانہ طرز پر اپنے ان دونوں بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ اس عورت کے والد نے اس کو اپنی جائداد سے محروم ہونے کا اعلان کردیاتھا۔ اس عورت نے اس ہندوکی پہلی بیوی کے گھر کو تباہ کردیااورا پنے والد کے گھر کو بھی برباد کردیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب اس عورت کے والد کا انتقال ہوگیاہے اوروہ اپنے آپ کومسلم کہہ کر اپنے والد کی جائداد میں سے حصہ چاہتی ہے جبکہ اب بھی اس کانام ہندوانہ ہے۔ کیا شریعت کی روشنی میں وہ اپنے والد کی جائداد کی وارث بن سکتی ہے؟اور کیا وہ اپنی ماں کی جائداد میں شریک ہوسکتی ہے؟

    جواب نمبر: 2927

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 156/ ل= 156/ ل

     

    من لم یعلم بإسلام قرابتہ إلا بعد موت المورث قبل القسمة وادعی أنہ أسلم فی حیاتہ فلہ نصیبہ ولو ادعی ذلک بعد القسمة لم یکن لہ نصیب لکون الظاھر مکذبًا لہ إلا أن یقیم علی ذلک بینة، وأما من أسلم بعد موت المورث ولم یدع الإسلام في حیاتہ فلا میراث لہ (إعلاء السنن، ج۱۸، ص۳۳۰، ط پاکستان)

     

    پتہ چلا کہ جب تک وہ عورت یہ نہ کہے کہ میں والد صاحب کی وفات سے پہلے مسلمان ہوگئی تھی اور اس پر ثبوت نہ پیش کردے وہ والد صاحب کے ترکہ کی وارث نہیں ہوگی، جہاں تک ماں کی جائداد میں حصہ دار ہونے کا مسئلہ ہے تو اگر وہ اب باضابطہ مسلمان ہوجاتی ہے اور اپنی ماں کی وفات تک مسلمان رہتی ہے تو وہ ماں کے ترکہ سے حصہ پانے کی مستحق ہوگی ورنہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند