• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 18191

    عنوان:

    میرا مسئلہ وراثت کے بارے میں ہے میرے والد وراثت بانٹنا چاہتے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، والد صاحب نے والدہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی بھی کی ہے جن کے ساتھ ایک دس سال کا لڑکا آیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ والد صاحب نے گھر بنایا تھا لیکن وہ پہلی بیوی کے نام پر ہے۔ اور ہمارے بڑے بھائی چاہتے ہیں کہ وہ گھر بیچ کر وراثت بانٹ دیں۔ میرے دو بڑے بھائیوں کے خود کے ذاتی گھر ہیں اور ہم دو چھوٹے بھائیوں کے نہیں ہیں۔ والد صاحب چاہتے ہیں کہ گھر کے سامنے والا حصہ بیچ کر بہنوں اور دو بھائیوں کا حصہ نکال دیں اور جو گھر بچ جائے اس میں ہم دو چھوٹے بھائی رہیں۔ لیکن میرے بڑے بھائی کا کہنا یہ ہے کہ گھر سارا بیچیں اور پھر حصہ کریں۔ دوسری چیز ان کا کہنا ہے کہ سب کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ جب کہ والد صاحب زندہ ہیں اس لیے وراثت بٹے گی نہیں بلکہ وہ جو بھی حصہ دیں گے وہ ہبہ کہلائے گا۔ اس حساب سے کیا والد صاحب اپنی مرضی سے جتنا حصہ ...

    سوال:

    میرا مسئلہ وراثت کے بارے میں ہے میرے والد وراثت بانٹنا چاہتے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، والد صاحب نے والدہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی بھی کی ہے جن کے ساتھ ایک دس سال کا لڑکا آیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ والد صاحب نے گھر بنایا تھا لیکن وہ پہلی بیوی کے نام پر ہے۔ اور ہمارے بڑے بھائی چاہتے ہیں کہ وہ گھر بیچ کر وراثت بانٹ دیں۔ میرے دو بڑے بھائیوں کے خود کے ذاتی گھر ہیں اور ہم دو چھوٹے بھائیوں کے نہیں ہیں۔ والد صاحب چاہتے ہیں کہ گھر کے سامنے والا حصہ بیچ کر بہنوں اور دو بھائیوں کا حصہ نکال دیں اور جو گھر بچ جائے اس میں ہم دو چھوٹے بھائی رہیں۔ لیکن میرے بڑے بھائی کا کہنا یہ ہے کہ گھر سارا بیچیں اور پھر حصہ کریں۔ دوسری چیز ان کا کہنا ہے کہ سب کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ جب کہ والد صاحب زندہ ہیں اس لیے وراثت بٹے گی نہیں بلکہ وہ جو بھی حصہ دیں گے وہ ہبہ کہلائے گا۔ اس حساب سے کیا والد صاحب اپنی مرضی سے جتنا حصہ جسے چاہیں دے سکتے ہیں؟ دوسری چیز اگر بھائیوں اوربہنوں کو حصہ کے برابر پیسہ مل رہا ہے گھر کے سامنے کا حصہ بیچنے سے تو کیا بڑے بھائی کا جو اصرار ہے پورا گھر بیچنا صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 18191

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):2504=1928-12/1430

     

    مکان بیچنے پر اصرار کرنا صحیح نہیں ،ابھی تووالد صاحب کے ذمہ تقسیم بھی نہیں ،نہ اولاد کو اس پر جبر کا حق حاصل ہے، البتہ اگر والد صاحب تقسیم کو مصلحت کے مناسب سمجھتے ہوں توایسی صورت میں یہ حکم ہے کہ جس قدرجائداد کو تقسیم کرنا چاہیں اس کے کل سات حصے کرکے تمام بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر دیدیں۔ اور برابری میں روپئے، زیور، اور دیگر سامانوں کو ملحوظ رکھ کر تقسیم کرلیں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں، مثلاً مکان کی موجودہ قیمت مقرر کرکے جن کو مکان دیں ان کے ذمہ مکان میں زائد پہنچے ہوئے حصے کی رقم ان پر لازم کردیں، بیٹیوں کے حصہ کی پورتی زیور یا رقم وغیرہ سے کردیں اگر کسی کو کچھ زائد دینے کی ضرورت ہو تو اس کو باقاعدہ لکھ کر معلوم کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند