• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 18141

    عنوان:

    میرے والد انٹر کالج میں پرنسپل تھے اوران کی تنخواہ سے ہر مہینے 83روپیہ کٹا کرتا تھا جو کہ ہر ملازم کو گروپ ایل آئی سی کے لیے کٹوانا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا سروس میں انتقال ہوگیا۔ ان کی پوری سروس میں جو رقم کٹی تھی وہ تیرہ ہزار کے قریب تھی، پر ایل آئی سی کے وعدہ (کہ سروس میں انتقال ہونے پر ایک لاکھ اور مزید جمع شدہ روپئے ملیں گے)کے حساب سے ہم لوگوں کو ایک لاکھ تیرہ ہزار روپیہ مل گیا۔ کیا یہ رقم یا بڑھی ہوئی رقم ہمارے لیے جائز ہے اور ہم اس کا حج کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ آپ سے درخواست ہے کہ میری اورمیرے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کریں۔

    سوال:

    میرے والد انٹر کالج میں پرنسپل تھے اوران کی تنخواہ سے ہر مہینے 83روپیہ کٹا کرتا تھا جو کہ ہر ملازم کو گروپ ایل آئی سی کے لیے کٹوانا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا سروس میں انتقال ہوگیا۔ ان کی پوری سروس میں جو رقم کٹی تھی وہ تیرہ ہزار کے قریب تھی، پر ایل آئی سی کے وعدہ (کہ سروس میں انتقال ہونے پر ایک لاکھ اور مزید جمع شدہ روپئے ملیں گے)کے حساب سے ہم لوگوں کو ایک لاکھ تیرہ ہزار روپیہ مل گیا۔ کیا یہ رقم یا بڑھی ہوئی رقم ہمارے لیے جائز ہے اور ہم اس کا حج کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ آپ سے درخواست ہے کہ میری اورمیرے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کریں۔

    جواب نمبر: 18141

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):2022=1602-1/1431

     

    اگر وہ رقم آپ کے والد کے اختیار کیے بغیر کٹتی تھا اس رقم کے کٹوانے میں آپ کے والد کا کوئی اختیار نہیں تھا، تو جمیع رقم آپ کے لیے جائز ہے، اور وہ رقم آپ کے والد کا ترکہ ہے؛ اس لیے اگر آپ کے والد کے اور لوگ بھی وارث ہوں تو ان کی اجازت سے حج کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ورثا میں کوئی نابالغ نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند