• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 174373

    عنوان: باپ كے كاروبار میں بچے معاون ہوں تو جائیداد كس طرح تقسیم ہوگی؟

    سوال: میں نے جائیداد سے متعلق کچھ مسئلے معلوم کرنے کے لئے آپ کو زحمت دی ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک صاحب کی ایک دکان اور ایک مکان تھا۔ اور ان کے چھ بیٹے ہیں۔ چھے بیٹوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بیٹوں کے علاوہ باقی چار بیٹے ایک ایک کر کے والد کے کاروبار میں لگ گئے تھے۔ جبکہ سب سے بڑا بیٹا اپنی پڑھائی کافی آگے تک کرتا رہا اور سب سے چھوٹا بیٹا اس وقت بچہ تھا اور وہ بھی پڑھائی کر رہا تھا۔ بیچ والے چار بیٹے جو والد کے کاروبار میں لگ گئے تھے وہ کچھ عرصے بعد کاروبار کا حساب کتاب اور پیسا اپنے ہاتھ میں رکھنے لگے۔ اور اللہ کے فضل سے کاروبار میں ترقی ہوئی۔ باپ بیٹوں نے دو جائیداد اور خریدیں اور ایک کاروبار اور کھولا۔ اس دوران سب سے بڑے بیٹے نے اپنی پڑھائی پوری کرنے کے بعد باپ کے کاروبار سے الگ ایک کاروبار کھولا لیکن وہ کاروبار نہیں چلا۔ اس کے بعد بڑا بیٹا کئی سال خالی رہا۔ اور پھر باپ کے دو کاروباروں میں سے دوسرے کاروبار میں لگ گیا لیکن خریدوفروخت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ صرف بیٹھ کر نگرانی کی۔ اس کے بعد بیچ والے چار بیٹوں نے کچھ جائیداد اور خریدیں۔ اس کے کئی سال بعد سب سے چھوٹا بیٹا بھی باپ کے دوسرے کاروبار میں لگ گیا۔ اور اللہ کے فضل سے چھوٹے بیٹے کے کاروبار میں لگنے کے بعد دوسرے کاروبار میں بھی کچھ عرصے بہت اچھی آمدنی ہوئی لیکن پھر باپ نے بیٹوں میں کاروبار اور جائیداد تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب اس صورت میں اسلامی قانون کے مطابق ساری جائیداد میں سب بیٹوں کا برابر کا حصہ ہوگا یا جن چار بیٹوں نے کافی سال پہلے سے محنت کی تھی ان کا حصہ زیادہ ہوگا۔ اور اگر وہ چاروں بیٹے یہ کہیں کہ ہم نے اپنی محنت سے یہ جائیداد خریدیں ہیں تو کیا ان کی محنت کے بدلے ان کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر باپ جائیداد کی تقسیم کرتے وقت یہ حساب نہ لگائے کہ ساری جائیداد کی قیمت کتنی ہے اور ایک بیٹے کا حصہ کتنا بنا اور بیٹی کا حصہ کتنا بنا۔ بلکہ بغیر حساب لگائے کسی بیٹے کو کم کسی کو زیادہ جائیداد دیدے تو کیا باپ کا ایسا کرنا درست ہو گا۔ اور کیا بیٹوں کو یہ فیصلہ ماننا پڑے گا یا بیٹے باپ کا فیصلہ نہ مان کر اسلامی قانون کے مطابق تقسیم کر سکتے ہیں۔ تیسرا مسلہ یہ ہے کہ ایک صاحب کے چار مکان تھے جن میں تین مکان نئے اور کء منزلہ بنے ہوئے تھے اور ایک مکان پرانا اور ایک منزلہ تھا۔ ان صاحب نے اسلامی قانون کے مطابق تقسیم نہیں کی بلکہ بغیر حساب لگائے تین نئے مکانوں کی تقسیم تو اس طرح کر دی کہ فلاں بیٹے کا فلاں مکان اور فلاں بیٹے کی فلاں مکان کی فلاں منزل اور بیٹی کی فلاں منزل۔ اور وہ تینوں مکان ان بیٹوں اور بیٹی کے حوالے کر دئیے۔ اور پرانا مکان جس میں ایک بیٹا رہ رہا ہے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ جب یہ مکان چار پانچ منزلہ بنے گا تو پہلی منزل میں گیراج بن جائے گا۔ اس میں سب بیٹوں کی کاریں اور ٹوویلر کھڑے ہو جائیں گے۔ اور اس کے اوپر جو بیٹا اس مکان میں رہ رہا ہے وہ بنا لے گا۔ اور اس کے اوپر جس بیٹے کے بچے بڑے ہو جائیں اور اس کی منزل رہنے کے لئے کم پڑے وہ بنا لے گا۔ اور یہ فیصلہ سب بیٹوں کو زبانی بتایا گیا۔ تحریر نہیں کیا گیا۔ اس وقت سب بیٹوں نے یہ فیصلہ مان لیا۔ لیکن اس فیصلے کے سات سال بعد جب باپ کا انتقال ہو گیا تو جو بیٹا اس پرانے مکان میں رہ رہا ہے اس کے دل میں بیمانی آگئی اور اس نے باپ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور سارا مکان خود لینا چاہا۔ اس پر سب سے چھوٹے بیٹے نے یہ کہا کہ اگر باپ کا فیصلہ منضور نہیں تو ساری جائیداد کی قیمت لگا لو اور اسلامی قانون کے مطابق تقسیم کر لو۔ اسلامی قانون کے مطابق حساب لگانے پر جو بیٹا اس پرانے مکان میں رہ رہا ہے اس کے حصے میں تقریباً تین چوتھائی مکان آیا اور سب سے چھوٹے بیٹے کے حصے میں ایک چوتھائی مکان آیا۔ لیکن جو بیٹا اس مکان میں رہ رہا ہے اس نے یہ فیصلہ ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ اب اگر بیمانی کرنے والے بیٹے کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ صرف اپنا حصہ لے تو تقسیم باپ کے فیصلے کے مطابق ہوگییا اسلامی قانون کے مطابق ہوگی۔ مہربانی کر کے تینوں سوالوں کا جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 174373

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 211-41T/D=03/1441

    (۱) مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں جب اصل کاروبار والد کا تھا، تو پورے کاروبار کے مالک تنہا والد ہوئے، اور کاروبار میں جو کچھ اضافہ ہوا اس کے بھی مالک والد ہوئے، بیٹے معاون کہلائیں گے، والد کو اپنی زندگی میں اختیار ہے، جس طرح چاہیں تصرف کریں، کاروبار اگر بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو ہر بیٹے کی محنت اور اس کے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے، اسی تناسب سے حصہ لگائیں، برابری کرنا واجب نہیں۔ چار بیٹوں کا یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ ہم نے اپنی محنت سے جائیدادیں خریدی ہیں، کیونکہ جب اصل کاروبار والد کا ہے تو اضافہ بھی انہی کی ملکیت ہوگا۔

    (۲) جب کاروبار کے مالک باپ ہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔ تمام بچوں میں تقسیم میں برابری کرنا مستحب درجے کی چیز ہے، بشرطیکہ کسی کا حق یا محنت ضائع ہوکر اس کی حق تلفی نہ ہو۔ ایسی صورت میں حق تلفی سے بچانے کے لئے والد تقسیم میں کمی بیشی بھی کر سکتے ہیں۔ اسلامی قانون کیا ہے اس کی وضاحت کریں اور مع حوالہ عبارت لکھیں۔

    (۳) تیسرے سوال میں سطر دو (۲) میں تحریر ہے ”ان صاحب نے اسلامی قانون کے مطابق تقسیم نہیں کی“ اسی طرح سطر نو (۹) میں ہے ”اسلامی قانون کے مطابق تقسیم کرلو“ ان دونوں جگہوں میں اسلامی قانون سے کیا مراد ہے؟ واضح کریں۔ جب والد صاحب نے اپنی زندگی میں تقسیم کرکے سب کو تقسیم کے مطابق اپنے حصے کا مالک و قابض بنا دیا تو اب اسلامی قانون کے مطابق کیا چیز تقسیم کی جائے گی؟ اور کس طرح تقسیم کرنا مراد ہے۔

    في ردالمحتار عن القنیة: الأب و ابنہ یکتسبان في صنعة واحدة ولم یکن لہما شيء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن في عیالہ لکونہ معیناً لہ ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب الخ (۶/۵۰۲، ط: زکریا، فصل في الشرکة الفاسدة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند