معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 172821
جواب نمبر: 172821
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1395-231T/H=01/1441
(۱) وراثت کے حصص کو ملحوظ رکھ کر تقسیم کردے تو گنجائش ہے۔ فتاویٰ ہندیہ و دیگر کتب فتاویٰ میں اس کی صراحت ہے۔ اور زندگی میں تقسیم چونکہ ہبہ ہے، اور ہبہ میں بیٹے بیٹیوں کو برابر برابر دے یہ اچھا ہے، تاہم پہلی صورت اختیار کرنا بھی درست ہے۔
(۲) یاد داشت کی خاطر انگلیوں کو دبائے رکھنے کی اگرچہ گنجائش ہے مگر اس کی عادت اپنا لینا کراہت سے خالی نہیں۔ ولا یفسدہا نظرہ الی مکتوب وفہمہ ولو مستفہما وان کرہ (قولہ وان کرہ) ”ای لاشتغالہ بما لیس من اعمال الصلاة“ (باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیہا فی الفتاویٰ رد المحتار ط: نعمانیة ، ج: ۱/۴۲۶) پس انگلیاں نہ دبائے بلکہ بھول ہو جانے پر جو حکم شرعی ہے اس کے مطابق عمل کیا کرے بالخصوص فرائض میں احتیاط اسی میں ہے، نیز جب کہ بھولنے کامرض ہے تو انگلیاں دبانے میں بھی تو بھول کا احتمال ہے۔
(۳) اگر جمع کردہ رقم (چٹی) میں سے لے کر قربانی نہیں کر سکتا اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی رقم نہیں ہے تو قربانی اس شخص پر واجب نہیں ہے۔ قال العلامہ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی تحت قولہ (والیسار الخ) والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج ملیا ”وبالموٴجل لا“ اھ ج: ۵/۱۹۸، (باب الاضحیة ، ط: نعمانیة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند