• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 172618

    عنوان: علیحدہ ہوتے بیٹوں کے درمیان وقت تقسیم کا شرعی طریقہ

    سوال: جناب مفتی صاحب درجہ ذیل مسئلے کی وجہ سے میں شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوں۔ مہربانی کرکے شرعی اعتبار سے وضاخت فرمائیں ہم تین بھائی اور چاربہنیں ہے ۔ میں سعودی عرب میں کام کرتا ہوں اور باقی دو بھائی پاکستان میں سرکاری سکول میں استاد ہیں۔ دونوں کی تنخواہیں اتنی ہے کہ ارام سے دونوں کا گزارا ہوجاتا ہیں۔ اور بچت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور والد صاحب ریٹائرڈ سرکاری سکول استاد ہیں لیکن ابو کی پنشن امی ابو کے خرچہ کیلئے کافی ہوتا ہیں۔ چاروں بہنوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ یاد رہے کہ ہم تینوں نے ابو کے پیسے سے تعلیم حاصل کی ہے اور ابو نے ہم تینوں کو تعلیم حاصل کرنے کا یکساں حق دیاہے ۔ میں چونکہ چھوٹا بیٹا ہوں اسلیے مجھے تعلیم اور رہائش کے خرچ کیلیے باقی دو بھائی ابو کے پیسوں میں سے پیسے بجھوانے کیلیے پچاس کیلومیٹر دورشہرجانے کی زخمت کرتے تھے ۔ ابوکے پیسے نہ ہونے کی صورت میں کسی سے قرضہ لے کربجھوا دیتے ، بعد میں ابو کی تنخواہ میں سے قرضہ واپس کرا دیتے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک ادھ دفعہ بھائیوں نے کچھ پیسے اپنی طرف سے بھی بھیجی ہو۔ میں نے سعودی عرب جانے کیلیے ویزا ابو کے پیسے سے تقریبآ پانچ لاکھ میں لیا تھا۔ میں نے اپنی کمائی میں سے والدین اور دونوں بھائیوں کو حج کروایے ہیں۔ امی کو ایک دفعہ الگ عمرہ کروایا ہے ۔ والدین کومہینے دو مہینے میں خرچ کیلیے الگ سے پیسے بھی بھیجتا رہتا ہوں۔ اور گھر کے مختلف کاموں کیلیے بھائیوں کو بھی پیسے بھیجے ہیں۔ ہم نے ایک پلاٹ بھی لیا ہے جوپورا میرے پیسے سے لیا گیا ہے ۔ ایک قطعہ زمین بھی چالیس لاکھ کا لیا ہے جس میں تیئس لاکھ میرا حصہ، پانچ پانچ لاکھ بھائیوں کا حصہ اور سات لاکھ گھرکا مشترکہ سونے کوبیچ کر۔ ہم سارے ابھی والد صاحب کے گھرمیں رہ رہے ہیں اور والدین الحمدللہ حیات ہیں۔ میرے سوالات درجہ زیل ہیں۔ ۱۔ اب جب ہم تین بھائی الگ الگ ہونے کیلیے تقسیم کرتے ہیں۔ تو شریعت کے اعتبار سے پلاٹ میں میرے ساتھ بھائیوں کا کیا حصہ ہوگا۔ ۲۔ زمین کس حساب سے ہم تینوں میں تقسیم کرنا چاہیے ۔ ۳۔ والدین اگر مجھے بھائیوں کی ایسی مدد کرنے کا کہتے ہیں جو شرعی اعتبارسے میرے زمے نہ ہو، تو کیا اس صورت میں والدین کا خکم نہ ماننے پر میں گنہگارہوگا۔ یاد رہے کہ میں والدین کو ہروقت کہتا رہتا ہوں کہ اپ دونوں کا جو بھی خدمت ہوں سرانکھوں پر، لیکن بھائیوں کیلیے میں مزید خرچے اسلیے نہیں کر سکتا کہ وہ دونوں خود صاحب استطاعت ہیں۔ اور اللہ نہ کرے اگر کل کو واقعی بھائیوں کی ایسی کوئی ضرورت پڑ گئی جو وہ خود استطاعت نہ رکھتے ہوں تو میں مدد کیلئے تیار ہو۔ انشاَاللہ۔

    جواب نمبر: 172618

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1350-200T/H=12/1440

    (۱) جو پلاٹ آپ نے اپنی ذاتی کمائی ہوئی رقم سے خریدا ہے اُس کے مالک تنہا آپ ہیں اُس پلاٹ میں والدین یا بھائی بہنوں کا کچھ حصہ نہیں ہے اور جو دوسرا پلاٹ (قطعہ زمین) چالیس لاکھ میں خریدا تھا جس میں آپ کے تیئس (۲۳) لاکھ روپئے لگے ہیں اور دس دس (۱۰-۱۰) لاکھ بھائیوں کے اور سات (۷) لاکھ گھر کا مشترکہ سونا بیچ کر لگائے گئے اس پلاٹ میں جتنی جتنی رقم جس جس کی لگی ہے ہر شخص اپنی اپنی رقم کے تناسب سے اس قطعہ زمین کا مالک ہے اگر اس قطعہ زمین کی خریداری کے وقت آپ اور بھائیوں نیز جن جن کی مشترکہ رقم لگی ہے کوئی معاملہ آپس میں قرض وغیرہ کا طے ہوا ہو تو اس کو صاف و واضح لکھ کر دوبارہ معلوم کرلیں۔

    (۲) نمبر (۱) کے تحت تفصیل سے حکم آگیا۔

    (۳) والدین بھائی بہنوں کے ساتھ حسن اخلاق حسن معاشرت کا برتاوٴ رکھیں جو خدمت آپ کے ذمہ بھائیوں کی شرعاً نہیں ہے اور والدین اس کا حکم کریں تو حکمت بصیرت نرمی کے ساتھ معذرت کردیا کریں، امید ہے کہ اس صورت میں گنہگار نہ ہوں گے معذرت کرنے میں حتی المقدرت سختی کے برتاوٴ سے اجتناب کریں تاکہ والدین کو تکلیف نہ پہونچے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند