• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 172155

    عنوان: دو بیویوں‏، دو بھائیوں اور ایك بہن كے درمیان تقسیم وراثت

    سوال: میرے چچا کا انتقال ہوگیا۔اس کے دو بیویاں ہے۔اس کے بچے نہیں ہے۔ایک بیوی کو اس کے بھائی نے ایک بیٹا دیا ہے۔اور دوسری بیوی مطلقہ تھی جو شادی میرے چاچو سے شادی کرنے سے پہلے اس کی ایک بیٹی تھی۔اب دونوں بچے انکے بیویوں کے ساتھ ہے۔میرے چاچو کا ایک بھائی اور ہم 3 بھتیجے 2 بھتیجیا (ایک شادی شدہ) ہے۔ جبکہ میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہے۔ میرے چاچو کی دو بہنیں ایک فوت اور دوسری شادی شدہ ہے۔ براہ کرم اب میرے چاچو کے وارث کون ہے اور اس کے مال کی تقسیم کیسے ہو گی۔

    جواب نمبر: 172155

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:990-850/N=12/1440

     

    اگر آپ کے والد اور ایک پھوپھی کا انتقال آپ کے چچا سے پہلے ہی ہوگیا تھا اور آپ کی چچا کی وفات پر اُن کی ۲/ بیویاں، ایک بھائی، ایک بہن ، ۳/ بھتیجے اور ۲/ بھتیجیاں تھیں تو صورت مسئولہ میں مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ایک، ایک حصہ مرحوم کی دونوں بیواوٴں کو ، ۴/ حصے مرحوم کے بھائی کو اور ۲/ حصے مرحوم کی بہن کو ملیں گے۔ اور بھائی کی وجہ سے مرحوم کے کسی بھتیجے یا بھتیجی کو مرحوم کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔اسی طرح دونوں بیواوٴں کے پاس ان کی اپنی یا کسی دوسرے کی جو اولاد ہے، اُس کا بھی مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، تخریج مسئلہ حسب ذیل ہے:

    مسئلہ۴، تص ۸

    -------------------------------------------

    زوجہ    1

    زوجة    1

    أخ        4

    أخت      2

     

    قال اللہ تعالی:﴿ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد الآیة﴾ (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)، فیفرض للزوجة فصاعداً…… الربع … عند عدمھما- الولد و ولد الابن- (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی: وإن کانوا إخوة رجالا ونساء فللذکر مثل حظ الأنثیین (سورہ النساء، رقم الآیة: ۱۷۶)، وعن ابن عباسقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل الخ ثم جزء أبیہ: الأخ لأبوین الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰: ۵۱۸- ۵۲۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند