• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 17160

    عنوان:

    محمد حنیف کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس لیے انھوں نے دوسری شادی کی۔ بعد میں پہلی بیوی سے ان کو ایک لڑکی ہوئی اور دوسری بیوی سے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوئیں۔دوسری بیوی کا 1959میں انتقال ہوگیا۔پہلی بیوی کو محمد حنیف نے اپنی زندگی میں ہی ایک مکان دے دیا اور بیوی کے نام سے ایک دکان خرید دی اس کے رہنے کے لیے اور روزی کے لیے۔ محمد حنیف کا بغیر کسی وصیت کے انتقال ہوگیا۔ محمد حنیف کا 1984میں انتقال ہوا۔ محمد حنیف کے ورثاء میں سے پہلی بیوی، اس کی لڑکی اور دوسری بیوی سے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں۔ کل زندہ لوگ پانچ ہیں۔ پہلی بیوی کا 1987میں انتقال ہوا۔ محمد حنیف کے انتقال کے بعد، تمام زندہ افراد کی موجودگی میں پراپرٹی کی مالیت (پہلی بیوی کے مکان اور دکان کو خارج کرنے کے بعد) اٹھارہ لاکھ تھی۔ پہلی بیوی او راس کی لڑکی کو سوا تین لاکھ کا بونڈ بطورآخری تصفیہ کے ان کے حصہ کے طور پر دیا گیا۔اس فیصلہ کو بیوی اور اس کی لڑکی نے ایک معاہدہ پر 5مئی 1984کو دستخط کرکے منظور کیا۔ ...

    سوال:

    محمد حنیف کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس لیے انھوں نے دوسری شادی کی۔ بعد میں پہلی بیوی سے ان کو ایک لڑکی ہوئی اور دوسری بیوی سے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوئیں۔دوسری بیوی کا 1959میں انتقال ہوگیا۔پہلی بیوی کو محمد حنیف نے اپنی زندگی میں ہی ایک مکان دے دیا اور بیوی کے نام سے ایک دکان خرید دی اس کے رہنے کے لیے اور روزی کے لیے۔ محمد حنیف کا بغیر کسی وصیت کے انتقال ہوگیا۔ محمد حنیف کا 1984میں انتقال ہوا۔ محمد حنیف کے ورثاء میں سے پہلی بیوی، اس کی لڑکی اور دوسری بیوی سے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں۔ کل زندہ لوگ پانچ ہیں۔ پہلی بیوی کا 1987میں انتقال ہوا۔ محمد حنیف کے انتقال کے بعد، تمام زندہ افراد کی موجودگی میں پراپرٹی کی مالیت (پہلی بیوی کے مکان اور دکان کو خارج کرنے کے بعد) اٹھارہ لاکھ تھی۔ پہلی بیوی او راس کی لڑکی کو سوا تین لاکھ کا بونڈ بطورآخری تصفیہ کے ان کے حصہ کے طور پر دیا گیا۔اس فیصلہ کو بیوی اور اس کی لڑکی نے ایک معاہدہ پر 5مئی 1984کو دستخط کرکے منظور کیا۔ اوپر مذکور تاریخ کو معاہدہ اور اپنے حصہ کو قبول کرنے کے باوجود، چند سالوں کے بعد انھوں نے دوسرے ورثاء سے اور مزید حصہ مانگنا شروع کیا۔ کیا دوسرے وارثوں کو ان کومزید حصہ دینا ہوگا؟ (۱)وراثت کی مقدار کیا ہے جو کہ ہر ایک زندہ پسماندگان کو ملے گی؟ (۲)کیا پہلی بیوی کو وراثت کی کوئی مقدار ملے گی؟ اگر ہاں، تو کتنی؟ (۳)چونکہ اس کا انتقال ہوچکا ہے اوراس کا کوئی رشتہ دار سوائے ایک لڑکی کے کوئی اور نہیں ہے۔(۴)جو تحفے محمد حنیف نے اپنی زندگی میں بغیر کسی وصیت کے دئے تھے جیسے کہ زمین کا قطعہ اور پٹرول پمپ اور ڈیڈ کو اپنی زندگی میں ایک خاص بچہ کے نام کردیا تھا، یہ سب عام ترکہ میں شامل کئے جائیں گے؟ ہاں یا نہیں؟ (۵)اگر ایک مرتبہ فتوی دے دیا جاتا ہے تو کیا اس پر تمام فریق کو جو کہ عام وراثت سے متعلق ہیں ماننا ہوگا یا ان کو اس کو قبول نہ کرنے کا اختیار ہے؟

    جواب نمبر: 17160

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):1994=420tl-12/1430

     

    (۱) ورثاء کی تعداد معلوم ہوجانے کے بعد ہی وراثت کی مقدار لکھی جاسکتی ہے۔

    (۲) پہلی بیوی چونکہ اپنے شوہر محمد حنیف مرحوم کے انتقال کے وقت حیات تھی اس لیے اس کا بھی اپنے شوہر کے ترکہ میں حصہ اورحق ہوگا اور محمد حنیف کا ترکہ اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ بعد ادائے حقوق مقدمہ علی المیراث مرحوم کا تمام ترکہ 40 حصوں میں منقسم ہوکر 5 حصے بیوی کو 14 حصے لڑکے کو اور 7,7 حصے تینوں لڑکیوں میں سے ہرایک کو ملیں گے۔

    (۳) اگر اس کے بھائی، چچا، بھتیجہ وغیرہ عصبات میں سے کوئی زندہ نہیں ہے تو لڑکی ہی اپنی والدہ کے حصے کی مالکہ ہوگی۔

    (۴) جو تحفے محمد حنیف مرحوم نے اپنی زندگی میں دیے تھے ان کا حکم یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو دے کر مالک وقابض بنادیا تھا اور اپنے آپ کواس سے دستبردار کرلیا تھا تو موہوب لہم (جن کو ہبہ کیا گیا تھا) اس کے مالک ہوگئے، ان تحائف کو عام ترکہ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور اگر صرف زبانی ہبہ کیا تھا، ہبہ کرکے مالک وقابض نہیں بنایا تھا تو موہوب لہم ان تحائف کے مالک نہیں ہوئے اور ان کو عام ترکہ میں شامل کیا جائے گا۔

    (۵) ترکہ کی یہ تقسیم اس وقت ہے جب کہ کوئی وارث اپنے جمیع حصے سے کوئی چیز لے کر الگ نہ ہوجائے، اگر کوئی وارث اپنے جمیع ترکہ سے کچھ لے کر اپنے حصہ سے دست بردار ہوجائے تو اس کی اجازت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند