معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 169981
جواب نمبر: 169981
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 984-855/H=09/1440
غالباً بہن سے مراد آپ نے اپنی بہن کو لیا ہے یعنی وہ والد مرحوم کی بیٹی ہے حاصل یہ کہ والد مرحوم نے اپنے ورثہ میں ایک بیوی دو بیٹے ایک بیٹی کوچھوڑا اس کا حکم یہ ہے کہ بعد اداءِ حقوق متقدمہ علی المیراث وصحت تفصیل ورثہ والد مرحوم کاکل مالِ متروکہ چالیس (۴۰) حصوں پر تقسیم کرکے پانچ (۵) حصے مرحوم کی بیوہ کو اور چودہ چودہ (۱۴-۱۴) حصے مرحوم کے دونوں بیٹوں کواور سات (۷) حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔
تقسیم ترکہ میں بہتر صورت یہ ہے کہ ہر وارث کے قبضہ میں اس کے حصہ شرعیہ میں آیا ہوا مال و جائداد دے دیا جائے پھر ہر وارث کو حق ہوگا کہ اپنے مال میں جو چاہے تصرف کرے اگر کسی کوہبہ کرنا چاہے توبالغ وارث کو اس کا بھی حق حاصل ہوگا۔
کل حصے = ۴۰
-------------------------
بیوی = ۵
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹی = ۷
--------------------------------
نوٹ: اگر سوال میں بہن سے مراد والد مرحوم کی بہن ہو یا والد مرحوم نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی کوچھوڑا ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ بالا تقسیم و تخریج کو کالعدم سمجھیں اور سوال صاف صحیح واضح لکھ کر دوبارہ بھیجیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند