• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 169885

    عنوان: وراثت سے متعلق چند سوالات

    سوال: (۱) میرے والد کا انتقال ہوگیاہے اور والدہ حیات ہیں، ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں، براہ کرم، بتائیں کہ والد صاحب مرحوم کے ترکے میں حصہ کیسے تقسیم کریں؟ (۲) والد صاحب نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیاہے، ان کی دو بہنیں ہیں جن میں سے ایک کا انتقال ہوگیاہے اور ایک زندہ ہے، مرحومہ بہن کی ایک اولاد ہے تو اس کو کتنا حصہ دینا چاہئے؟ (۳) میرے دادا نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا تھا ، ان کی دو بہنیں تھیں اور دونوں کا انتقال ہوگیاہے ایک بہن کے بچے ہیں اور دوسری بہن نے میرے والد صاحب اپنے بیٹے کے طورپر گود لیا تھا، توحصہ دینے کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟ (۴) میرے والد صاحب کے ایک بھائی ہیں اور دونوں نے پہلے ہی نصف نصف جائیداد لے لی ہے، تو ہم حصہ کیسے تقسیم کریں؟ (۵)کیا مرحومہ بہنوں کے حصوں سے مسجد بنا سکتے ہیں یا نہیں؟

    جواب نمبر: 169885

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:740-604/N=8/1440

    (۱): آپ کے والد مرحوم نے اگر اپنے وارثین میں صرف ایک بیوی،۳/ بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے، اور آپ کے والد کے ماں، باپ ، دادا، دادی اور نانی کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا تو آپ کے والد مرحوم کا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے آپ کی والدہ اور بہن کو ایک، ایک حصہ اور آپ کو اور آپ کے دونوں بھائیوں کو ۲، ۲/ حصے ملیں گے، تخریج کا نقشہ یہ ہے

    زوجہ = 1

    ابن = 2

    ابن = 2

    ابن = 2

    بنت = 1

    قال اللہ تعالی:﴿ فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)۔

    وقال تعالی أیضاً: ﴿یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)۔

     وعن ابن عباسقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل الخ (المصدر السابق، ص: ۵۱۸)۔

    ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ ( المصدر السابق ، ص:۵۲۲)۔

    (۲): آپ کے دادا کی وفات پر، دادا کے شرعی وارث کون کون تھے؟ ان کی تفصیل لکھ کر سوال کیا جائے۔ اور یہ بھی تحریر کیا جائے کہ مرحومہ بہن کی وفات پر اس کی ماں اور شوہرمیں سے کوئی باحیات تھا یا نہیں؟ اور اس کی جو ایک اولاد ہے ، وہ لڑکا ہے یا لڑکی؟

    (۳): آپ کے پردادا کی وفات پر، پردادا کے شرعی وارث کون کون تھے؟ ان کی تفصیل لکھ کر سوال کیا جائے۔ اور ان میں سے جن کا انتقال ہوچکا ہے، ان کے شرعی وارثین کی بھی تفصیل لکھی جائے۔

    (۴):نمبر ۲، اور ۳کی مطلوبہ وضاحتیں تحریر کی جائیں، پھر والد صاحب کے پاس جو بھی باپ ، دادا کی جائدادیں ہیں، ان کی شرعی تقسیم تحریر کردی جائے گی۔

    (۵): جی نہیں! مرحومہ بہنوں کا حصہ ان کے وارثین ہی کو دینا ضروری ہے اور وہی اس کے حق دار ہیں، ان کی اجازت کے بغیر مرحومہ بہنوں کا حصوں مسجد وغیرہ میں نہیں لگایا جاسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند