• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 167137

    عنوان: كیا والد كی زندگی میں ان كی جائیداد میں بچوں كا كوئی حق نہیں ہوتا؟

    سوال: گھر ۶۳ لاکھ کا فروخت ہوا، جس میں سے پندرہ لاکھ ایک بہن کو ملے اور پندرہ لاکھ دوسری بہن کو، باقی کی رقم والد صاحب اپنے استعمال میں لے آئے، والد صاحب کی طرف سے مجھے جو رقم ملتی رہی وہ مکان کے رینٹ کی صورت میں تھی جو کے واپس لینے کی نیت سے نہیں دی تھی، دونوں بہنوں کو بھی والد نے وقت کے ساتھ ساتھ نقد رقم دی جس میں مجھے کوئی اشکال نہیں، اب جو رقم مجھے دی گئی اس کو بنیاد بناتے ہوئے والد صاحب نے گھر کو سیل کرنے کے بعد مجھے میرا حصہ نہیں دیا، بہنوں کو دیدیا، میرے والد صاحب عالم دین نہیں ہیں ، اس لیے براہ کرم، رہنمائی فرمادیں۔

    جواب نمبر: 167137

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:342-337/L=4/1440

    زندگی میں تو والد صاب اپنی جائیداد کے تنہا مالک ہیں اور اس میں ان کو تنہا بیچنے ہبہ کرنے وغیرہ کا اختیار ہے ان کی حیات تک بچوں کا ان کی جائیداد وغیرہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ؛البتہ اگر والدین اولاد کو ہبہ کرتے ہیں تو ہبہ میں اولاد کے درمیان مساوات(برابری) سے کام لینا مستحب ہے ،صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کووالد صاحب اس سے پہلے اسی قدر یا کچھ کم وبیش رقم دے چکے ہیں تو پھر آپ کو اشکال نہ کرنا چاہیے ؛البتہ اگر آپ کورقم کم ملی ہے تو والد صاحب کو چاہیے کہ آپ کو بھی اتنی رقم اور دیدیں جس سے اولاد کے درمیانی برابری ہوجائے اور آپ کی دل شکنی نہ ہو۔

    قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالی نقلاً عن الامام أحمد رحمہا اللّٰہ تعالی: یجوز التفاضل ان کان لہ سبب کأن یحتاج الولد لزمانتہ ودینہ أو نحو ذلک دون الباقین وقال أبویوسف رحمہ اللّٰہ تعالی تجب التسویة ان قصد بالتفضیل الاضرار ، ونقل عن الجمہور: أن التسویة مستحبة الخ۔ (فتح الباري: ۵/ ۲۱۴، باب الہبة للولد، ط: دار المعرفة، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند