معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 166727
جواب نمبر: 166727
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 311-284/H=3/1440
آپ کے والد نے اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی تھی، ان کا تقسیم کرنا ہبہ کے درجے میں تھا، اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ موہوب لہ کو شیء موہوب پر مکمل قبضہ کرا دیا جائے، لہٰذا جائیداد کی تقسیم کے بعد اگر ورثہ نے اپنے اپنے حصوں پر والد صاحب کی حیات میں مکمل قبضہ کر لیا تھا، تو وہ ان حصوں کے مالک بن گئے تھے۔ اب دوبارہ اس جائیداد کی تقسیم کی ضرورت نہیں رہی، او رجو جائیداد تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ ترکہ ہے، اس پر میراث کے احکام جاری ہوں گے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کل ترکہ وراثت پر مقدم حقوق (دین، وصیت) وغیرہ کی ادائیگی کے بعد ۸۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے گیارہ (۱۱) حصے مرحوم کی بیوی کو اور ۱۴-۱۴/ حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور ۷/ حصے مرحوم کی بیٹی کو دئے جائیں گے۔
نوٹ: اگر ہبہ مذکورہ شرط کے اعتبار سے صحیح نہ ہوا ہو، تو اس کو بھی ترکہ میں شامل کرلیں۔ وتتم الہبة بالقبض الکامل ، وقال في الدرر والقبض الکامل في المنقول بما یناسبہ وفي العقار بما یناسبہ ۔ الدر المختار مع الرد: ۱۲/۵۸۱، ط: زکریا دیوبند۔
تنعقد الہبنة بالایجاب والقبول وتتم بالقبض الکامل ، لانہا من التبرعات والتبرع لایتم إلا بالقبض شرح المجلة: ۱/۴۶۲) ط: دارالکتاب العلمیة۔
اور اگر والد مرحوم نے کھیتوں کی تقسیم صرف انتظامی اعتبار سے کی تھی کہ تم فلاں کھیت میں کام کرو تم فلاں میں کرو تو بھی یہ تمام کھیت والد مرحوم کا ترکہ ہوکر تمام ورثہ میں علیٰ قدر حصصہم تقسیم ہوں گے۔
کل حصے = ۸۸
-------------------------
بیوی = ۱۱
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹی = ۷
--------------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند