معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 166588
جواب نمبر: 166588
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 174-37T/SN=04/1440
(الف) باپ نے اپنی زندگی میں بیٹیوں کو جو کچھ دے کر انہیں مالک و قابض بنا دیا ہے؛ بیٹیاں اس کی مالک ہو گئیں، اس کے علاوہ جو کچھ بھی مرحوم کی ملکیت میں بہ وقت وفات تھا، سب مرحوم کا ”ترکہ“ ہے، یہ مرحوم کی اہلیہ اور تمام بیٹے بیٹیوں کے درمیان حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگا، مرحوم نے جو وضاحت کی ہے کہ میراث میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سے بیٹیاں محروم نہ ہوں گی؛ کیونکہ وراثت غیر اختیاری چیز ہے، خود مورث بھی اس سے کسی کو محروم نہیں کرسکتا، زندگی میں مرحوم نے بیٹیوں کو جو کچھ دیا ہے وہ ان کی طرف سے تبرغ و ہبہ شمار ہوگا۔
(ب) مرحوم نے اہلیہ کے حق میں تمام جائیداد کی جو وصیت کی ہے، اس کا بھی شرعاً اعتبار نہیں ہے الا یہ کہ تمام بیٹے بیٹیاں اس کی تنفیذ پر مرحوم کی وفات کے بعد بہ خوشی آمادہ ہوں۔
(ج) مرحوم نے جو ملگی ساتوں بیٹیوں کے نام رجسٹری کرائی ہے اگر وہ ملگی مرحوم کی وفات تک انہیں کے قبضہ دخل میں تھی، بیٹیوں کے قیضہ میں نہیں دی گئی تھی تو مرحوم کی طرف سے ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ ملگی بھی ”ترکہ“ شمار ہوگی۔
(د) اگر مرحوم نے اپنے ورثاء میں صرف اہلیہ، چار بیٹوں اور سات بیٹیوں کو چھوڑا تھا، ان کے علاوہ کوئی وارثت مثلاً والد، والدہ کو نہیں چھوڑا، نیز مرحوم کی اہلیہ نے بھی بہ وقت وفات اپنے والدین کو نہیں چھوڑا تو صورت مسئولہ میں مرحوم اوران کی اہلیہ مرحومہ کا کل ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۱۵/ حصوں میں تقسیم ہوکر ۲-۲/ حصے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ۱-۱/ حصہ ساتوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملے گا۔
نقشہ تخریج حسب ذیل ہے:
کل حصے = ۱۵
-------------------------
بیٹا = ۲
بیٹا = ۲
بیٹا = ۲
بیٹا = ۲
بنت = ۱
بنت = ۱
بنت = ۱
بنت = ۱
بنت = ۱
بنت = ۱
بنت = ۱
--------------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند