• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 166588

    عنوان: كیا لڑكیوں كو محروم كرنے كی وصیت نافذ ہوگی؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علاء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک صاحب مرحوم نے اپنے ترکہ میں لب سڑک چار ملگیات (دکانات)اور اسی کے اوپرایک لارج اور ان ملگیات سے متصل پیچھے حصے میں مکان چھوڑا ہے مرحوم کو چار لڑکے اور سات لڑکیاں شادی شدہ ہیں لڑکے مرحوم کے مکان میں ہی رہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور مکان نہیں ہے مرحوم اپنی حیات میں تمام لڑکیوں کے نکاح موقع پراور بعد نکاح وقتا فوقتا جب جب لڑکیوں کو رقم کی ضرورت تھی کچھ نہ کچھ تعاون کرتے رہے مثلا پہلی لڑکی کو ایک مکان دوسری لڑ5کی کو رقم تیسری لڑکی مکان کی خریدی کیلیے جزوی امداد پانچویں کو مکان کیلیے رقم چھٹویں کو ایک عدد پلاٹ یعنی زمین ساتویں کو زمین اسکے علاوہ چار ملگیات میں سے ایک ملگی سات لڑکیوں کے نام رجسٹرد بھی کرا چکے ہیں بلا قبضہ اور یہ وضاحت بھی کرچکے ہیں کہ آئندہ میراث میں میرے انتقال کے بعد کوئی حصہ نہیں ملے گا اب لڑکیاں اپنا حق میراث شرع کے موافق طلب کررہی ہیں اور مرحوم نے ایک تحریر وصیت نامہ میں ہ\یہ بھی وضاحت کرچکے ہیں کہ میرے انتقال کے بعد کل جائیداد کی مالک میری اہلیہ رہے گی مرحوم کے انقال کے بعد اہلیہ کا بھی انتقال ہو چکا ہے تو اب تقسیم میراث از روئے شرع کس طرح ہوگی جواب عنایت فرمائیں انشائاللہ عنداللہ ماجور ہوں گے ۔

    جواب نمبر: 166588

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 174-37T/SN=04/1440

    (الف) باپ نے اپنی زندگی میں بیٹیوں کو جو کچھ دے کر انہیں مالک و قابض بنا دیا ہے؛ بیٹیاں اس کی مالک ہو گئیں، اس کے علاوہ جو کچھ بھی مرحوم کی ملکیت میں بہ وقت وفات تھا، سب مرحوم کا ”ترکہ“ ہے، یہ مرحوم کی اہلیہ اور تمام بیٹے بیٹیوں کے درمیان حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگا، مرحوم نے جو وضاحت کی ہے کہ میراث میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سے بیٹیاں محروم نہ ہوں گی؛ کیونکہ وراثت غیر اختیاری چیز ہے، خود مورث بھی اس سے کسی کو محروم نہیں کرسکتا، زندگی میں مرحوم نے بیٹیوں کو جو کچھ دیا ہے وہ ان کی طرف سے تبرغ و ہبہ شمار ہوگا۔

    (ب) مرحوم نے اہلیہ کے حق میں تمام جائیداد کی جو وصیت کی ہے، اس کا بھی شرعاً اعتبار نہیں ہے الا یہ کہ تمام بیٹے بیٹیاں اس کی تنفیذ پر مرحوم کی وفات کے بعد بہ خوشی آمادہ ہوں۔

    (ج) مرحوم نے جو ملگی ساتوں بیٹیوں کے نام رجسٹری کرائی ہے اگر وہ ملگی مرحوم کی وفات تک انہیں کے قبضہ دخل میں تھی، بیٹیوں کے قیضہ میں نہیں دی گئی تھی تو مرحوم کی طرف سے ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ ملگی بھی ”ترکہ“ شمار ہوگی۔

    (د) اگر مرحوم نے اپنے ورثاء میں صرف اہلیہ، چار بیٹوں اور سات بیٹیوں کو چھوڑا تھا، ان کے علاوہ کوئی وارثت مثلاً والد، والدہ کو نہیں چھوڑا، نیز مرحوم کی اہلیہ نے بھی بہ وقت وفات اپنے والدین کو نہیں چھوڑا تو صورت مسئولہ میں مرحوم اوران کی اہلیہ مرحومہ کا کل ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۱۵/ حصوں میں تقسیم ہوکر ۲-۲/ حصے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ۱-۱/ حصہ ساتوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملے گا۔

    نقشہ تخریج حسب ذیل ہے:

    کل حصے  =       ۱۵

    -------------------------

    بیٹا       =       ۲

    بیٹا       =       ۲

    بیٹا       =       ۲

    بیٹا       =       ۲

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    بنت      =       ۱

    --------------------------------


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند