• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 166245

    عنوان: تقسیم اور قبضہ سے پہلے کسی وارث کا اپنے حصہ دوسرے وارثین کو ہبہ کرنے کا حکم

    سوال: شیخ سخاوت حسین کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے وارثین میں سے ایک لڑکی: قریشہ خاتوں، اور ایک بیوی: کثیرن خاتون چھوڑا ہے ۔ سوال: شیخ سخاوت حسین کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے وارثین میں سے ایک لڑکی: قریشہ خاتوں، اور ایک بیوی: کثیرن خاتون چھوڑا ہے ، والدین: حاجی الفت حسین اور بیوی توسی خاتون اور چھ بھائی اور چار بہنوں کو چھوڑا ۔ محروم کی ملکیت میں انتقال کے وقت پانچ بیگھہ زمین تھی۔ جس میں چار بیگھہ زمین ان کے والد صاحب کی طرف سے تحریری ہبہ نامہ اور قبضہ کے ساتھ دی گئی تھی اور ایک بیگھہ زمین زبانی طور پر ہبہ اور قبضہ نامہ کے ساتھ دی گئی تھی ۔ مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے والد حاجی الفت حسین صاحب نے اپنی زندگی میں وہ پوری جائداد محروم کی لڑکی اور بیوی کو دے دی، یعنی: حاجی الفت حسین صاحب نے اور محروم کی والدہ نے اپنی وراثت کو اپنی زندگی میں اپنی پوتی اور بہوں کے قبضہ میں چھوڑ دیا اور مرحوم کے والد حاجی الفت حسین صاحب کے انتقال کے بعد آج تک اس جائداد پر قریشہ خاتوں اور اس کی ماں کا قبضہ اور دخل ہے ۔ اب حاجی الفت حسین کے وارثین اس زمین پر اپنا دعویٰ پیش کر رہے ہیں اور اس میں اپنا حق ثابت کر کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ وہ ساری جائداد بیوی قریشہ خاتوں کو زبانی طور پر دے دی تھی اور قبضہ بھی کرا دی گئی تھی۔ اس جائداد کے علاوہ حاجی الفت حسین کی متروکہ آٹھ بیگھہ زمین اور ہے ۔جس میں مرحوم کو کچھ نہیں دیا گیا تھا ۔ سوال: طلب امر یہ ہے کہ محروم: شیخ سخاوت حسین کی متروکہ جائداد سے حاجی الفت حسین کے وارثین حق پانے حق دار ہیں یا نہیں؟ اور انکا یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں؟ جب حاجی الفت حسین نے بی بی قریشہ اور اس کی ماں کو اپنی زندگی میں ہی مکمل دے دیا اور آج تک وہ جائداد ان ہی کے قبضہ میں ہیں۔

    جواب نمبر: 166245

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:144-200/N=4/1440

    (۱، ۲): صورت مسئولہ میں حاجی الفت حسین اور ان کی بیوی: توسی خاتون نے بہ ظاہر تقسیم اور قبضہ سے پہلے اپنا اپنا حصہ مشترکہ طور پر اپنی بہو اور بیٹی کوہبہ کیاہے ؛ لیکن یہ ہبہ شرعی اصول اور ضابطہ کے مطابق نہیں ہوا ہے؛کیوں کہ اگر کوئی وارث وراثت سے حصہ نہ لینا چاہے اور متروکہ جائداد وغیرہ قابل تقسیم ہو تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جائداد کی تقسیم ہو اور ہر وارث اپنے حصہ پر قابض ودخیل ہوجائے ، پھر جو وارث کسی کو اپنا کل یا بعض حصہ دینا چاہے، دے، تقسیم اور قبضہ سے پہلے قابل تقسیم ترکہ کا ہبہ درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی وارث دولوگوں کو اپنا حصہ دینا چاہے اور اس کا حصہ بھی قابل تقسیم ہو تو ہر ایک کو اس کا حصہ متعین کرکے الگ الگ دے ، مشترکہ طور پر نہ دے (فتاوی دار العلوم دیوبند،۱۵:۲۵۵، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)۔ اور صورت مسئولہ میں بہ ظاہر دونوں میں سے کسی بات پر عمل نہیں ہوا؛ اس لیے صورت مسئولہ میں شیخ سخاوت حسین کی متروکہ جائداد وغیرہ میں حاجی الفت حسین اور توسی خاتون کے حصہ کے حق دار، ان کے شرعی وارث ہیں اور ان کا اپنے اپنے حصوں کا مطالبہ درست ہے اگرچہ ساری جائداد وغیرہ پر اب بھی شیخ سخاوت حسین کی بیٹی اور بیوہ کا قبضہ ہو۔

    وھبة حصتہ من العین لوارث أو لغیرہ تصح فیما لا یحتمل القسمة، ولا تصح فیما یحتملھا قنیة فی باب ھبة الدین من کتاب الھبة (واقعات المفتین، ص: ۱۱۰، ط: مصر)، وشرائط صحتھا فی الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع الخ (االدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸: ۴۸۹، ط: مکتبة زکری دیوبند)، وتتم الھبة بالقبض الکامل…… (في) متعلق ب ”تتم“ (محوز) مفرغ (مقسوم)ومشاع لا) یبقی منتفعاً بہ بعد أن (یقسم) کبیت وحمام صغیرین لأنھا (لا) تتم بالقبض (فیما یقسم الخ) ولو وھبہ لشریکہ أو لأجنبي لعدم تصور القبض الکامل کما في عامة الکتب فکان ھو المذھب (المصدر السابق،ص: ۴۹۳، ۴۹۵)، وھب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشیوع، وبقلبہ لکبیرین لا عندہ للشیوع فیما یحتمل القسمة (المصدر السابق،ص: ۵۰۲)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار، ۸: ۴۹۶)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند