• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 166106

    عنوان: زندگی میں ساری زمین وجائداد وقف کرنے کا حکم

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ کیا شریعت نے والدین کو اس چیز کا حق نہیں دیا ہے کہ وہ زندگی میں ہی جتنی جائیداد کمائی اسکو اللہ کے دین کے لیے وقف کریں؟ حالانکہ وہ رات دن محنت کرکے زمین بناتا ہے ، مال کماتا ہے اور اگر وہ سب دین کے خاطر سب لٹا دیں تو، اولاد کہتی ہے یہ ہمارا ہے ، اس میں ہمارا حق ہے ؟ حالانکہ انکی شادیاں اور باقی حقوق ادا کرکے ،، کیا باقی حصہ صدقہ کرنے کے بدلے اولاد کو ضروری دینا ہوتا؟ اگرچہ اولاد اچھی کھاتی پیتی ہو؟؟ کیا اپنی چیز پر دنیا میں ہی اتنا بھی حق نہیں رہتا؟؟ اصل میں میرے ایک ساتھی کے پاس 9 ایکڑ زمین ہے جو انہوں نے مسجد اور مدرسے کے لیے دی بھی اور جتنا ہو سکتا تھا اس میں انہوں نے مدرسہ بھی بنا دیا، یعنی پیسہ بھی خرچ کیا، وہ چاہتے ہیں بچی ہوئی زمین وقف کردوں جہاں دین سیکھا جائے ، کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو اچھی طرح پال پوس کر پڑھایا لکھایا اور شادیاں کردیں،، تو اب اگر حصہ کرنے کے بدلے وہ پورا ہی وقف کردیں تو پکڑ تو نہیں ہوگی؟

    جواب نمبر: 166106

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:131-299/N=4/1440

    (۱): آدمی اپنی حیات اور صحت وتندرستی کے زمانہ میں اپنی تمام املاک: زمین وجائداد وغیرہ کا تن تنہا مالک ہوتا ہے، اس کی کسی ملکیت میں اولاد یا بیوی وغیرہ کا کوئی مالکانہ حق نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنی حیات اور صحت وتندرستی کے زمانہ میں اپنی تمام زمین وجائداد اللہ کے لیے وقف کردے تو وہ وقف درست ہوجائے گا؛ لیکن بیوی، بچوں کو خالی ہاتھ چھوڑکر جانا دانش مندی نہیں ہے؛ اس لیے آدمی وقف میں ان کا خیال رکھے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے کہ بعد میں بیوی، بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔

    (۲): اگر اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی ہو، کھاتی پیتی ہو اور مالی اعتبار سے بھی مضبوط ہو اور آدمی اپنی آخرت کے لیے کچھ زمین وجائداد وقف کرنا چاہے تو اولاد اپنے کسی حق کی دعویدار نہیں ہوسکتی ۔

    (۳):صورت مسئولہ میں آپ کے کسی دوست نے مسجد ومدرسہ کے لیے جو کچھ کردیا، وہ ماشاء اللہ کافی ہے ۔ اب انھیں چاہیے کہ مابقیہ زمین وجائداد بیوی بچوں کے لیے چھوڑدیں؛ تاکہ وہ مالی اعتبار سے مزید مضبوط ہوجائیں۔ اور اگر آپ کے دوست کے پاس اس کے علاوہ اور بھی زمین وجائداد یا مکان، دکان وغیرہ ہے اور یہ زمین ان کے مقابلہ میں کافی کم ہے تو اگر وہ یہ زمین بھی مسجد ومدرسہ یا کسی اور دینی کام میں دیدیں تو اس میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں۔

    قال علیہ الصلاة والسلام لسعد بن أبي وقاص:إنک أن تذر ورثتک أغنیاء خیر من أن تذرھم عالة یتکففون الناس (مشکاة المصابیح، باب الوصایا، الفصل الأول، ص: ۲۶۵، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)، مستفاد: وندبت بأقل منہ ولو عند غنی ورثتہ أو استغنائھم بحصتھم کما ندب ترکھا بلا أحدھما أي: غنی واستغناء الخ (الدر المختار، کتاب الوصایا، ۱۰: ۳۴۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وحاصلہ أنہ لا تنبغي الوصیة بتمام الثلث؛ بل المستحب التنقیص عنہ مطلقاً؛ لأنہ علیہ الصلاة والسلام قد استکثر الثلث بقولہ: ”والثلث کثیر“؛ لکن التنقیص عند فقر الورثة وإن کان مستحباً إلا أن ثمة ما ھو أولی منہ، وھو الترک أصلاً الخ (رد المحتار، ۱۰: ۳۴۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند