• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 165187

    عنوان: وراثت سے متعلق چند مسائل

    سوال: سوال نمبر ۱۔زید اپنے پانچ لڑکوں و دو لڑکیوں کو چھوڑکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ہے ۔سب سے بڑا لڑکا بکر زید کی پہلی زوجہ سے ہے جو بہت سالوں سے الگ رہتا ہے ۔زید نے بکر کو ایک دکان اس کے حق کے عوض میں دے دیا ہے ۔پھر زید نے ایک زمین خریدی اور اس زمین کی رجشٹری اپنے نام نہ کراکر اپنے لڑکوں کے نام کرانے کا فیصلہ صرف اس نیت سے لیا کہ اس زمین میں بکر حقدار نہ ہو لیکن رجشٹری کے بعد زید کے لڑکے خود زید سے ہی کہنے لگے کہ وہ زمین آپ کی نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے لڑکیوں کی ہے -کیا اس زمین میں زید کی دونوں لڑکیوں کا حق ہے یا نہیں؟ سوال نمبر۲۔زید کو پانچ بہنیں ،پانچ لڑکے وہ دو لڑکیا ہیں ۔زید کی پانچوں بہنیں ایک بعد دیگر اپنی ضعیفی میں انتعقال کر گئیی اور اپنے بچوں کو اپنے پیچھے چھوڑ گئیی ۔اور اب زید بھی انتعقال کر چکا ہے ۔کیا زید کی بہن کے بچّے زید کی جائیداد میں حقدار ہوں گے ؟ سوال نمبر۳۔زید نے اپنی موجودگی میں اپنی ایک زمین کو اپنی طلاق شدہ لڑکی کے لڑکے یعنی اپنے نواسے کو زاہد کو دینے کی وصیت صرف زبانی کی تھی۔ جس کے گواہ موجود ہیں لیکن زیدکے مرنے کے بعد اس زمین کو زید کے لڑکو نے فروخت کرنے کے بعد اسکا روپیہ زید کے نواسے زاہد کو دینے سے انکار کر دیا ۔برائے مہربانی شرح کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 165187

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 17-2/M=1/1440

    (۱) صورت مسئولہ میں زید نے جو زمین خریدی اور اس کی رجسٹری بکر کو چھوڑ کر دیگر لڑکوں کے نام کرائی تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اگر رجسٹری کرانے کے بعد زید نے اس زمین کے حصے کرکے الگ الگ لڑکوں کو دے کر مالک و قابض بھی بنا دیا تھا تب تو جن جن لڑکوں کو حصہ دے کر مالک و قابض بنا دیا تھا وہ مالک ہوگئے اور اگر ایسا نہیں کیا تھا صرف کاغذی طور پر نام کرایا تھا اور عملی طور پر قبضہ و تصرف زید نے اپنا برقرار رکھا تھا تو اس صورت میں وہ زمین زید ہی کی ملکیت ہے اور زید اپنی زندگی میں خود مختار ہے چاہے اولاد کو دے یا نہ دے اور چاہے فرخت کردے یا وقف کردے ، ہر تصرف کا حق ان کو حاصل ہے اور اگر زندگی میں زید نے وہ زمین اولاد کے درمیان تقسیم نہیں کی او رنہ کسی قسم کا تصرف کیا بلکہ اپنی ملکیت میں باقی رکھا اور اسی حال میں انتقال ہو گیا تو اسی صورت میں تمام اولاد یعنی سبھی لڑکے اور لڑکیاں وارث ہوں گی۔

    (۲) اس صورت میں زید کی متروکہ جائیداد میں زید کی بہن کے بچوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

    (۳) اگر یہ زمین ایک تہائی ترکہ یا اس سے کم ہے اور زید نے اپنی طلاق شدہ لڑکی کے لڑکے یعنی نواسے (زاہد) کو اپنی ملکیت میں سے دینے کی وصیت کی تھی اور یہ وصیت شرعاً ثابت ہے یعنی اس پر دو گواہ موجود ہیں تو چاہے وصیت زبانی ہو وہ معتبر ہوگی اور زید کے ترکہ سے ایک تہائی کے حق دار وصیت کے مطابق ان کے نواسے (زاہد) ہوں گے اگر زید کے لڑکوں نے وہ زمین فروخت کردی ہے تو ایک تہائی کی قیمت نواسے کو دیدی جائے ورنہ لڑکے گنہگار ہوں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند