• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 164959

    عنوان: جائیداد دینے میں اولاد كے درمیان كمی بیشی كرنا

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہم چھ بھائی اور ایک بہن ہیں، ہماری جوائنٹ فیملی تھی، والد صاحب نے جو پروپرٹی خریدی تھی اس کو انہوں نے تقسیم کردی تھی، میرے بھائی بزنس کرتے ہیں اور بڑے بھائی سرکارمی ملازمت میں انجینئر ہیں ، انہوں نے زمین وغیرہ بھی خریدی ہے، لیکن والد صاحب کی طرف سے جائیداد تقسیم ہونے کے بعد ہم جوائنٹ فیملی میں تھے، لیکن جائیداد کی تقسیم برابر ی طورپر نہیں ہوئی ، انہوں نے بڑے بھائی کو جو کہ انجینئر ہیں بہت زیادہ دیاہے، کیا درست طریقہ ہے؟ اور کیا اسلام اس کی اجازت دیتاہے؟

    جواب نمبر: 164959

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:19-129/sd=2/1440

     زندگی میں انسان اپنے مملوکہ اموال و جائداد میں خود مختار ہوتا ہے ،وہ جس کو جتنا چاہے دے ، تاہم افضل و بہتر یہ ہے کہاولاد کے درمیان زندگی میں اگر جائداد تقسیم کی جائے ، تو سب کو برابر برابر دیا جائے ، لیکن اگر کسی نے کسی لڑکے کو زیادہ دے دیا، تو اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، ہاں اگر دوسری اولاد کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کسی کو زیادہ دینا گناہ کا کام ہے ، پس صورت مسئولہ میں اگر والد صاحب نے اپنی زندگی میں آپ کے بڑے بھائی کو کچھ زیادہ دے کر مالک و قابض بنادیا، تو شرعا وہ مالک بن جائیں گے اور والد صاحب کی نیت اگردوسری اولاد کو محروم کرنے یا کم دے کر نقصان پہنچانے کی نہیں تھی، تو عند اللہ وہ ماخوذ بھی نہیں ہوں گے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند