• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 164315

    عنوان: ایك بیوی دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں كے درمیان وراثت كی تقسیم

    سوال: جناب ہم ۲ بھائی، ۵ بہنیں اور والدہ ہیں- جن میں ۲ بھائی اور ۳ بہنیں شادی شدہ ہیں- ہمارے والد صاحب زمیندار تھے - انہوں نے اپنی زندگی میں جایداد تقسیم نہیں کی ، نہ ہی کوئی وصیت کی- ان کی حیات میں ان کی ایک شادی شدہ بیٹی اور داماد نے جایداد میں حصہ حاصل کرنے کے لئے والد صاحب کو بہت ستایا، برابھلا کہا۔ پریشان ہو کر والد صاحب نے گھر میں یہ تک کہا کہ میں اس اولاد کو اپنی جایداد سے بے دخل کر دونگا - انہوں نے لیکن ایسا کیا نہیں- مئ ۶۱۰۲ میں اچانک ہارٹ اٹیک سے والد صاحب فوت ہو گئے - اس وقت ہندستانی قانون کے حساب سے وراثت تقسیم ہو گئی اور والدہ، ۲بھائی اور ۲غیر شادی شدہ بہنوں میں برابر بٹ گئ - پھر کسی وجہ سے (اس بڑے بہنوئی کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے ) اور بڑوں کی رائے سے ہم دونوں بھایئوں نے دونو بہنوں والا حصہ بھی اپنے نام کرالیا- اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں اور ان دو سالوں میں اس بڑی شادی شدہ بہن نے ہمیں بھی پریشان کیا اور ہماری بے بنیاد شکایتیں سرکاری دفتروں میں درج کرائی - عزیزی کرام آپسے گزارش ہے برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں میرے ان سوالوں پر رہنمائی فرمائے : ۱. اس صورتِ حال میں اب ہمیں کیا اور کس طرح تقسیم کرنا چاہیے ؟ ۲. اب دونوں چھوٹی بہنیں اپنا وہ حصہ واپس مانگ رہی ہیں جو ہم نے اپنے نام کروایا تھا جبکہ ہم دونوں بھائیوں نے شرعی قانون کے حساب سے ساری بہنوں کو انکا حق دینے کا فیصلہ کیا ہے - کیا انکی یہ مانگ صحیح ہے ؟ ۳. نافرمان اولاد کا وراثت میں کتنا حصہ ہے ۴. کیا ہم اس تقسیم کو گھر کی ساری ذمہ داریاں اور دونوں بہنوں کی شادی کے باد تک موخّر کر سکتے ہیں. افضل کیا ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

    جواب نمبر: 164315

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1480-226T/sn=1/1440

    ایک بیوی، دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم

    (الف) آب کے دادا اور دادی کا انتقال اگر آپ کے والد مرحوم سے پہلے ہی ہوگیا تھا تو صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم نے جو کچھ بھی ترکہ: زمین، مکان، پیسہ، زیورات اور اثاثہ وغیرہ چھوڑا ہے سب کے، بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث کل ۷۲/ حصے ہوں گے جن میں سے مرحوم کی بیوی (آپ کی والدہ) کو ۹/ حصے، دونوں بیٹوں میں سے ہرایک کو ۱۴-۱۴/ حصے اور پانچوں بیٹیوں میں سے ہرایک کو ۷-۷/ حصے ملیں گے، آپ لوگ اسی اعتبار سے ترکہٴ والد کی تقسیم کرلیں، جو بیٹی نافرمان تھی اس کو بھی دیگر بیٹیوں کی طرح حصہ ملے گا، سرکاری قانون کے اعتبار سے جو تقسیم ہوئی ہے وہ شرعی تقسیم نہیں ہے، اس کا شرعاً کچھ اعتبار نہیں؛ لہٰذا اوپر بیان کردہ تقسیم کے مطابق مرحوم کے ہرایک بیٹے بیٹیوں کو اس کا حصہ دیدیا جائے اور تقسیم میں جلدی کی جائے، بہنوں کی شادی کے بعد تک موخر کرنے سے نزاع پیدا ہوسکتا ہے۔

    زوجہ = ۹

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    بنت = ۷


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند