معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 163821
جواب نمبر: 163821
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1198-930/SN=12/1439
باپ بچوں کو زندگی میں جو کچھ دیتا ہے وہ میراث نہیں ”ہبہ“ ہوتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ میں بہتر یہی ہے کہ تمام بیٹے بیٹیوں کو برابر دے، گو یہ بھی جائز ہے کہ بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک گنا دے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب آپ کے والد یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ایک حصہ اور تینوں بیٹیوں کو تین حصے دیں گے تو شرعاً ان کا یہ فیصلہ درست ہے، انہیں چاہئے کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لئے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ کے چار حصے کرکے ایک حصہ آپ کو اور باقی تین حصے تینوں بیٹیوں کو دیدیں، اور جس کو جو حصہ دے اسے اس پر مکمل طور پر قبضہ دخل دے کر اپنا دخل ختم کرلیں ورنہ بچوں کے حق میں ہبہ تام نہ ہوگا اور بچے اپنے اپنے حصے کے شرعاً مالک نہ ہوں گے؛ کیونکہ ہبہ کی تمامیت کے لئے قبضہ تامہ ضروری ہے۔ دیکھیں: درمختارمع الشامی: ۸/۴۸۹، ۵۰۳، ط: زکریا، دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند