• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 162624

    عنوان: وراثت کی تقسیم

    سوال: موتی بیگم مرحومہ کا انتقال سنہ1986 میں ہوا- انتقال کے وقت انکے شوہر' بیٹا' یاحقیقی بھائی نہیں تہے ،ایک اکلوتی بیٹی سعیدہ بیگم اور ایک بہن چاندنی بیگم موجود تہیں۔ سوال1- جائداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟سنہ 2009 میں بہن چاندنی بیگم کابہی انتقال ہوگیا،چا ندنی بیگم لاولد تہیں اور انتقال کے وقت شوہر نہیں تہے البتہ چاندنی بیگم کے چچازاد بہائی کے لڑکے موجود تہے - سوال2- کیا بیٹی سعیدہ بیگم اب پورے متروکہ موتی بیگم کی حقدار ہوں گی-اور کیاان کو پورے متروکہ میں تصرف کا حق حاصل ہوگا؟

    جواب نمبر: 162624

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1131-957/N=11/1439

    (۱، ۲): بہ شرط صحت صورت مسئولہ میں مرحومہ موتی بیگم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۲/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ایک حصہ سعیدہ بیگم کو اور دوسرا حصہ چاندنی بیگم کے واسطہ سے چاندنی بیگم کے چچا زاد بھائی کے لڑکوں کو ملے گا، جووہ آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیں گے۔ صورت مسئولہ میں موتی بیگم کا سارا ترکہ سعیدہ بیگم کو نہیں ملے گا۔ تخریج مسئلہ حسب ذیل ہے:

    میت (موتی بیگم )

    بنت (سعیدہ بیگم) = ۱

    أخت ( چاندنی بیگم) = ۱

     

    میت (چاندنی بیگم)

    أبنا ابن العم = ۱

    وعصبة مع غیرہ وھي کل أنثی تصیر عصبة مع أنثی أخری کالأخوات لأب وأم أو لأب یصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن ھلکذا في محیط السرخسي، مثالہ بنت وأخت لأبوین و أخ أو إخوة لأب فالنصف للبنت والنصف الثاني للأخت ولا شیء للإخوة؛ لأنھا- أي: لأن الأخت- لما صارت عصبة نزلت منزلة الأخ لأبوین الخ کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة، کتاب الفرائض، الباب الثالث فی العصبات، ۶: ۴۵۱، ۴۵۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وعن ابن عباسقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند