معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 161043
جواب نمبر: 161043
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1018-80T/H=8/1439
(۱) ٹیلی ویژن اور موسیقی کا ناجائز وحرام اور گناہ ہونا ظاہر ہے یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہیں، ان جیسے امور میں اصلاح اور گناہ سے سچی پکی توبہ کا وجوب بھی ظاہر ہی ہے اور خواہ یہ فلیٹ مسجد (مصلی) والے فلیٹ کے اوپر نیچے ہوں یا ان کے دائیں بائیں ہوں یا کسی بھی جگہ میں ہوں سب کا حکم یکساں ہے تاہم دیگر منزولوں میں ٹیلی ویژن اور موسیقی کے استعمال کی وجہ سے مسجد کے نام سے جو فلیٹ ہے اُس میں نماز ادا کرلینے پر نماز کے نہ ہونے کا حکم لاگو نہ ہوگا یعنی نماز درست ہوتی ہے بلکہ جماعت سے نماز کا اہتمام ہوتا ہے تو جماعت سے نماز پڑھنے کا ثواب بھی ملتا ہے، البتہ صورت مسئولہ میں یہ مسجدیں شرعی مسجد کے درجہ میں نہیں ہیں اس لیے کہ شرعی مسجد وہی ہوتی ہے کہ جس کی تمام منزلیں اور چھت اور نچلا حصہ سب کا سب مسجد ہی ہو جیسا کہ حضراتِ فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریحات سے ثابت ہے، اور یہ بات بھی آپ کو معلوم ہی ہے۔
(۲) سودی قرض (لون) کا حرام ہونا تو قرآنِ کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہے کتب فقہ وفتاوی میں بھی صاف اور صراحةً مذکور ہے لیکن آج کل رائج معاملات میں بدرجہٴ مجبوری کسی کسی کے حق میں گنجائش ہے اصول وضوابط کے تحت ہوتی ہے تاہم اگر کسی نے لون لے لیا اور اس کے حق میں خواہ گنجائش نہ تھی تو اگرچہ لینا تو گناہ اور لعنت کا موجب ہو ا مگر اس سے جو فلیٹ خریدلیا اس پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا ہاں البتہ سود لینے دینے کا گناہ ہوگا اور نماز اس فلیٹ میں بھی پڑھنا درست رہے گا چونکہ مالکِ فلیٹ اس کا مالک ہوگیا اوراس کی اجازت سے اس میں نماز ہورہی ہے۔
(۳) اس صورت میں نماز کا بغیر کسی کراہت کے صحیح ہوجانا ظاہر ہے۔
(۴) آپ نے صحیح سنا ہے اور کوشش تو اسی طرح مسجد شرعی بنانے کی کرنا چاہیے مگر آج کل بڑے بڑے شہر جیسے ممبرا، ممبئی، دہلی، کلکتہ وغیرہ میں اس طرح مسجدِ شرعی کا ہرجگہ میں بنالینا کچھ آسان نہیں ہے بلکہ بعض بعض مواقع میں بڑی مشکلات پیش آجاتی ہیں جن سے صرفِ نظر کرلینا آسان نہیں ہے باقی آپ اور آپ کے جیسے جذباتِ صالحہ رکھنے والے حضرات اس کی سعی کرتے رہیں تو بہت مستحسن عمل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند