• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 161043

    عنوان: فلیٹ میں بنی مسجد كا حكم كیا ہے؟

    سوال: جناب ایک بہت اہم مسلئہ کا جواب درکار ہے ، پچھلے دنوں مہاراشٹر کے ایک شہر ممبرا جانے کا اتفاق ہوا، مسلم آبادی سے بھرا یہ شہر ہے یہاں مساجد و نمازیوں کی کثرت بھی الحمداللہ بہت ہے ، لیکن دیگر شہروں کی بہ نسبت ایک بہت عجیب بات یہاں یہ لگی کہ بہت سی بلڈنگوں اور کامپلیکسوں میں ایک، دو،کہیں تین تین فلیٹ (جو مخیر حضرات کی جانب سے وقف ہے ) ملاکر مساجد بنائی گئی ہیں۔یہ مساجد اس بلڈنگ اور اطراف والوں کی سہولت کے لئے ہوتی ہیں، یہ سبھی مساجد کسی بلڈنگ کے پہلے یا دوسر ے منزل پر بنائی گئی ہیں۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی مساجد میں نماز جائز ہے جس کے اوپر اور نیچے فلیٹ بنے ہوں جن میں لوگ اپنی زندگی جی رہے ہوں ان فلیٹوں میں ٹیلی ویژن اور موسیقی بجتی ہو؟ اور سب کچھ جو ہم دوسری جگہوں پر ہوتا ہو؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ جن فلیٹوں کو مخیر حضرات نے مساجد کے لئے وقف کیا ہو ان میں بیشتر فلیٹ بینک لون پر لئے فلیٹ ہیں، کیا لون والی مساجد میں نماز جائز ہے ؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مساجد والے فلیٹ بینک لون پر نہیں بھی ہوں تب بھی اوپر نیچے کے بہت سارے فلیٹ تو بینک لون پر ہی ہیں،کیا یہ صحیح ہے ؟ میرا چوتھا سوال یہ ہے کہ پھر اس حوالے کی صداقت کا کیا جو ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ مسجد کی جگہ فرش سے عرش تک مسجد کی رہتی ہے ؟ یہ بھی بتائے کہ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ یہ سبھی مخیر حضرات اپنی رقموں کو جڑا کر کسی ایک جگہ کا انتخاب کرتے اور وہاں مسجد بناتے ۔ برائے کرم قران حدیث و دلائل سے رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 161043

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1018-80T/H=8/1439

    (۱) ٹیلی ویژن اور موسیقی کا ناجائز وحرام اور گناہ ہونا ظاہر ہے یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہیں، ان جیسے امور میں اصلاح اور گناہ سے سچی پکی توبہ کا وجوب بھی ظاہر ہی ہے اور خواہ یہ فلیٹ مسجد (مصلی) والے فلیٹ کے اوپر نیچے ہوں یا ان کے دائیں بائیں ہوں یا کسی بھی جگہ میں ہوں سب کا حکم یکساں ہے تاہم دیگر منزولوں میں ٹیلی ویژن اور موسیقی کے استعمال کی وجہ سے مسجد کے نام سے جو فلیٹ ہے اُس میں نماز ادا کرلینے پر نماز کے نہ ہونے کا حکم لاگو نہ ہوگا یعنی نماز درست ہوتی ہے بلکہ جماعت سے نماز کا اہتمام ہوتا ہے تو جماعت سے نماز پڑھنے کا ثواب بھی ملتا ہے، البتہ صورت مسئولہ میں یہ مسجدیں شرعی مسجد کے درجہ میں نہیں ہیں اس لیے کہ شرعی مسجد وہی ہوتی ہے کہ جس کی تمام منزلیں اور چھت اور نچلا حصہ سب کا سب مسجد ہی ہو جیسا کہ حضراتِ فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریحات سے ثابت ہے، اور یہ بات بھی آپ کو معلوم ہی ہے۔

    (۲) سودی قرض (لون) کا حرام ہونا تو قرآنِ کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہے کتب فقہ وفتاوی میں بھی صاف اور صراحةً مذکور ہے لیکن آج کل رائج معاملات میں بدرجہٴ مجبوری کسی کسی کے حق میں گنجائش ہے اصول وضوابط کے تحت ہوتی ہے تاہم اگر کسی نے لون لے لیا اور اس کے حق میں خواہ گنجائش نہ تھی تو اگرچہ لینا تو گناہ اور لعنت کا موجب ہو ا مگر اس سے جو فلیٹ خریدلیا اس پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا ہاں البتہ سود لینے دینے کا گناہ ہوگا اور نماز اس فلیٹ میں بھی پڑھنا درست رہے گا چونکہ مالکِ فلیٹ اس کا مالک ہوگیا اوراس کی اجازت سے اس میں نماز ہورہی ہے۔

    (۳) اس صورت میں نماز کا بغیر کسی کراہت کے صحیح ہوجانا ظاہر ہے۔

    (۴) آپ نے صحیح سنا ہے اور کوشش تو اسی طرح مسجد شرعی بنانے کی کرنا چاہیے مگر آج کل بڑے بڑے شہر جیسے ممبرا، ممبئی، دہلی، کلکتہ وغیرہ میں اس طرح مسجدِ شرعی کا ہرجگہ میں بنالینا کچھ آسان نہیں ہے بلکہ بعض بعض مواقع میں بڑی مشکلات پیش آجاتی ہیں جن سے صرفِ نظر کرلینا آسان نہیں ہے باقی آپ اور آپ کے جیسے جذباتِ صالحہ رکھنے والے حضرات اس کی سعی کرتے رہیں تو بہت مستحسن عمل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند