• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 160086

    عنوان: مشترکہ اثاثہ اور تركہ كا حكم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں: ہم سب بہن بھائی والدین کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ گھر کے اخراجات اور کھانا پینا اکٹھے ہوتا تھا۔ مشترکہ گھر میں ہم نے ایک پلاٹ خریدا تھا جو کہ ہم دو بھائیوں نے اپنی بیویوں کے زیورات بیچ کر خریداتھا۔ جس میں میری اہلیہ کی طرف سے 7حصے تھے یعنی 10ہزار روپے جو کہ دو تولے سونے کی مالیت کے برابر تھے اور 5تولے سونا جو کہ میرے والدین نے میری طرف سے اس کو مہر میں دیئے تھے ، اور 3حصے میرے بھائی کی اہلیہ کے زیورات کو بیچ کر دیئے تھے جو کہ اس کی بیوی کا حق مہر نہیں تھا بلکہ ہماری طرف سے اس کو دیئے گئے تھے ۔ بعد میں وہ پلاٹ ہم نے 6,30000 روپے میں بیچ کر اپنے دو بھائیوں کی شادیاں کرائیں اور اس میں سے 2لاکھ روپے میرے حج کے اخراجات پر لگ گئے ۔ بعد میں میرے بھائی کی اہلیہ کو اس کے 3حصے کے بقدر پیسے واپس کر دیئے گئے تھے جو ہم سے پہلے جدا ہوگیا تھا جبکہ میری اہلیہ کے 7حصے اس کو واپس نہیں کئے گئے ۔ ہمارے پاس اجارہ کی زمین ہے جو کہ تقریباً 140 سال سے ہم کاشت کر رہے ہیں۔ جس کی سالانہ دو ہزار روپے فی چار کنال مالک کو اجرت دی جاتی ہے ، اور اس کی خرید و فروخت کے متعلق علاقے کا عام رواج یہ ہے کہ اگر مالک نے اس زمین کو بیچنا ہو تو پہلے وہ اس زمین کے کاشت کار کو ہی اطلاع کرے گا کہ میں نے یہ زمین بیچنی ہے ، اگر آپ نے خرینا ہے تو خرید لیں اور علاقے کے نرخ کے مطابق اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، دوسرا اصول اس زمین کے بارے میں یہ ہے کہ مالک کے فوت ہونے کے بعد معاملہ بر قرار رہتا ہے اور اجرت مالک کے ورثاء کو دی جاتی ہے اور کاشت کار کے فوت ہونے کے بعد وہ زمین اس کے بیٹوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور وہ اس زمین کی کاشت کرکے مالک کو سالانہ اجرت دے دیتے ہیں اور کاشت کار کے فوت ہونے کے بعد اگر بیٹے الگ ہونا چاہے تو وہ زمین آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور پھر ہر ایک اپنے حصے کی زمین کاشت کرکے مالک کو سالانہ اجرت دیتے ہیں۔ یعنی تقسیم وغیرہ میں اس زمین کے ساتھ مالکانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ میں ایف سی فورس میں ملازم تھا۔ ریٹائر ہونے پر مجھے جو گریجویٹی ملی تھی اس کو میں نے ایک کاروبار میں لگایا ہے جس کے نفع سے میں اپنے اخراجات پورے کر رہا ہوں۔ نوٹ: ہمارے والد صاحب اب فوت ہوگئے ہیں۔ والد صاحب کی زندگی میں میری ریٹائرمنٹ ہوئی تھی اور اس کے بعد پھر والد صاحب کی زندگی میں ہی مجھے مشترکہ گھر سے الگ کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے : .1 میری اہلیہ کو اس کا حق مہر واپس کیا جائے گا یا نہیں، اگر واپس کیا جائے گاتومشترکہ گھر سے لے کر واپس کیا جائے گا یا کسی خاص بندے سے ؟ .2 مذکورہ اجارہ کی زمین میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ .3 ریٹائرمنٹ کے وقت مجھے جو گریجویٹی ملی ہے اس میں میرے بھائیوں کا حصہ ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

    جواب نمبر: 160086

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:831-63T/H=8/1439

    (۱) جب دونوں بھائیوں کی بیویوں کا زیور لے کر مشترکہ پلاٹ خریدا تو بظاہر وہ زیور دونوں بیویوں سے قرض لیا تھا، ایسی صورت میں جس طرح چھوٹے بھائی کی اہلیہ کے تین حصے اداء کیے تھے اسی طرح آپ کی اہلیہ کے زیور کے سات حصے بھی مشترک مال میں سے ادا کرنا چاہیے اگر آپ کی اہلیہ نے معاف کردیا ہو یا وہ اپنے زیور کی مالک نہ ہو یا کوئی اور صورت ہو تو اس کو صاف صحیح واضح لکھ کر سوال دوبارہ کریں۔

    (۲) حکومت کے قانون کے اعتبار سے تو آپ حق دار ہیں لیکن شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ مالک زمین یا کرایہ دار دونوں میں سے کسی کو موت ہوجائے تو کرایہ داری کا معاملہ ختم ہوجاتا ہے اس معاملہ میں وراثت کی طرح حکم نہیں ہے، اب آپ کے حق میں بہتر یہ ہے کہ حکومت کے قانون سے جتنی زمین آپ کو ملتی ہے اس کو آپ چھوڑدیں یا پھر اس کو آپ لے کر اصل مالکان سے اپنے حصہ کی کرایہ داری کا معاملہ طے کرلیں تو اس زمین کا استعمال آپ کے حق میں درست ہوجائے گا۔

    (۳) آپ کی تنخواہ یا علاوہ تنخواہ کے جو کچھ بھی گریجویٹی وغیرہ کے عنوان سے ملا یا آئندہ ملے اس کے مالک تنہا آپ ہوں گے اس میں بھائیوں بہنوں کا کچھ حصہ نہیں ہے یعنی واجبی کوئی حصہ نہیں ہے یوں آپ از راہِ صلہ رحمی وحسن اخلاق کچھ دیں بلکہ دینا چاہیے تو دنیا وآخرت میں بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند