معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 159036
جواب نمبر: 159036
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 599-580/M=6/1439
میت کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ سے جن لوگوں کا حق متعلق ہوتا ہے ان کو دے کر جلد ذمہ فارغ کرلینا بہتر ہوتا ہے، اگر میت پر کسی کا قرض ہے تو اسے ترکہ سے ادا کردیا جائے اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو ائے نافذ کی جائے اور اگر قرض یا وصیت کچھ نہیں ہے تو جملہ ترکہ، تمام شرعی ورثہ میں حسب حصص تقسیم کردیا جائے، اگر کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو تو مضایقہ نہیں، صورت مسئولہ میں اگر کوئی عذر نہ ہو تو جلد تقسیم کرلینا بہتر ہے لیکن اگر ماں کہہ رہی ہے کہ میری موت تک تقسیم نہ کرو تو اگر تینوں لڑکے اور لڑکیاں بخوشی اس کو قبول کرلیں اور ماں کی وفات تک تقسیم ترکہ کو موٴخر کریں تو شرعاً حرج نہیں اور جب تک تقسیم نہ ہو تمام بھائی، بہنوں کی اجازت سے متروکہ مکان میں رہیں جب کہ بھائیوں کا بھی اس میں حصہ ہے اور بہنوں کو ان کا حصہ دینے کی نیت بھی ہے تو اس طور پر رہنے کو بہنوں کا حق دباکر رہنا نہیں کہلائے گا اور یہ قابل مواخذہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند