معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 15897
ایک
والد نے اپنے بیٹے کو اپنی آدھی جائداد میں سے حصہ دے دیا اس کے بعد بیٹے کا انتقال
ہوگیا۔ اب سوا ل یہ ہے کہ باقی بچی آدھی جائداد میں بیٹے کی اولاد کو حصہ ملے گا
یا نہیں؟
ایک
والد نے اپنے بیٹے کو اپنی آدھی جائداد میں سے حصہ دے دیا اس کے بعد بیٹے کا انتقال
ہوگیا۔ اب سوا ل یہ ہے کہ باقی بچی آدھی جائداد میں بیٹے کی اولاد کو حصہ ملے گا
یا نہیں؟
جواب نمبر: 1589701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1538=1457/1430/ب
بیٹے کو اپنی جائداد کا آدھا حصہ دے کر مالک وقابض بنادیا تھا تو اس کا مالک بیٹا ہوگیا،اس کے انتقال کے بعد وہ جائداد اس کی اولاد کو ملے گی، اور چھٹا حصہ باپ کو بھی ملے گا، اب جو آدھی جائداد باپ کے پاس ہے باپ کے مرنے کے بعد اگر اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے تو یہ بقیہ جائداد بھی پوتے پوتیوں کو مل جائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ایک شخص کا اتنقال ہوگیا، پسماندگا ن میں، اس کی بیوی ، تین بیٹیاں ، دو شادی شدہ بھائی، پانچ شادی شدہ بہنیں ہیں، کوئی بیٹا نہیں، کوئی والد نہیں، کوئی والدہ نہیں۔ براہ کرم، بتائیں شریعت میں میراث کیا ہوگا؟
کیا طلاق شدہ بیوی شوہر کی وراثت میں حصہ پانے کی حقدار ہے؟ (۲)کیا طلاق شدہ بیوی کے بچے باپ کی وراثت میں حصہ پانے کے حق دار ہیں؟ (۳)کیا طلاق شدہ بیوی کے بچے جو باپ کے پاس رہ گئے ہوں وہ طلاق شدہ ماں کی وراثت میں حصہ پانے کے حق دار ہیں؟ قرآن، حدیث اور مستند کتابوں کے حوالے کے ساتھ جواب فرمائیں۔ یہ سوال خالصتاً علمی جستجو کے لیے ہیں۔
7572 مناظراگر بھائی والد کی جائداد ، روپئے، بزنس میں سے اپنی بہن کو ترکہ نہ دے تو کیا وہ مال اس کے لیے حلا ل ہوں گے؟
1434 مناظرہم
تین بہنیں ہیں۔ میرے والد کا فروری میں انتقال ہوا اور ہم نے ان کے تمام اثاثہ کو
اسلامی حکم کے مطابق اپنی ماں، میری پھوپھی اور ہمارے (تینوں بہن) کے درمیان تقیسم
کرلیا۔ اب ہماری ماں ہم تینوں بہنوں کو اپنی تمام پراپرٹی، زیورات، نقد پیسے
(بشمول اس کے جو کچھ ان کو ہمارے مرحوم والد سے وراثت میں ملا) ، اپنا مکان، جس میں
وہ رہ رہیہیں وغیرہ دینا چاہتی ہیں، جب کہ وہ اب بھی حیات ہے۔ ان کے ایسا کرنے کی
وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقی بھائی اور دو بہنوں کو اپنی وفات کے بعد دینا پسند نہیں
کرتی ہیں ۔ اللہ تعالی ان کو عمر دراز دے آمین۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے تم کو اپنی
تمام دولت دے دی ہے اور اب ہم ان کو اپنے مکان میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں، اپنا پیسہ،
کار، نقدی، کرایہ وغیرہ استعمال کرتے ہوئے۔ انھوں نے اپنی خواہش کے بارے میں اپنے
بھائی اور بہن کو بھی مطلع کیا ہے ۔ ہمارا سوال ہے کہ (۱) کیا ہماری ماں کے اس
مشورہ کو قبول کرنا درست ہے؟ (۲)اس
صورت میں کیا حکم ہے اگر ہم میں سے دواس مشورہ کو قبول کریں اور ایک انکار کرے ؟(۳)اگر سوال نمبر ایک کا
جواب ہاں میں ہے، تو اس صورت میں کیاحکم ہوگا اگر ہماری ایک بہن کا ہماری ماں سے
پہلے انتقال ہوجاتاہے؟
بیٹوں كو زیادہ اور بیٹیوں كو كم دینا
8134 مناظر