معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 158787
جواب نمبر: 158787
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:548-530/N=6/1439
آپ کے دادا نے جس طرح کھیتی باڑی کی زمین تمام اولاد کے درمیان تقسیم کی، اسی طرح انھیں پلاٹ بھی تمام اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیے تھا، پلاٹ میں بیٹیوں کو حصہ نہ دے کر انہوں نے غلط کیا؛
البتہ اب دادا کے انتقال کے بعد ان کی بیٹیوں کا پلاٹ میں کچھ حصہ ہوتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے لیے عرض ہے کہ اگر آپ کے دادا نے اپنے پانچ با حیات بیٹوں کے درمیان پلاٹ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر قبضہ دخل دیدیا تھا اور خود اس سے مکمل طور پر بے دخل اور دست بردار ہوگئے تھے تو اب ان کی وفات کے بعد پلاٹ میں ان کی بیٹیوں کا حصہ نہ ہوگا۔ اور اگر انہوں نے پلاٹ پر پانچوں بیٹوں کو قبضہ دخل نہیں دیا تھا یا پلاٹ پانچ بیٹوں کے درمیان قابل تقسیم تھا اور ہر ایک کو الگ الگ تقسیم کرکے نہیں دیا تھا تواس صورت میں پلاٹ میں ان کی بیٹیوں کا بھی حصہ شرعی ہوگا؛ کیوں کہ پہلی صورت میں ہبہ تام ہوگیا اور دوسری صورت میں تام نہیں ہوا؛ اس لیے دوسری صورت میں پلاٹ دادا کا ترکہ ہوکر ان کے سب وارثین میں حسب شرع تقسیم ہوگا۔
اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وشرائط صحتھا فی الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع الخ (المصدر السابق،کتاب الھبة، ۸: ۴۸۹)، وتتم الھبة بالقبض الکامل (المصدر السابق،ص: ۴۹۳)،وتتم الھبة بالقبض الکامل ولو الموھوب شاغلاً لملک الواھب لا مشغولا بہ، والأصل أن الموھوب إن مشغولاً بملک الواھب منع تمامھا وإن شاغلاً لا فلو وھب جراباً فیہ طعام طعام الواھب أو داراً فیھا متاعہ …وسلمھا کذلک لا تصح الخ (المصدر السابق، کتاب الھبة ۸: ۴۹۳، ۴۹۴)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار ۸: ۴۹۶) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند