• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 158787

    عنوان: دادا نے پلاٹ كی زمین بیٹوں میں اور كھیتی باڑی كی زمین سب میں تقسیم كی‏، كیا یہ درست ہے؟

    سوال: میرے دادا کی پراپرٹی ان کے والد کے مرنے کے بعد حصے میں آئی تھی ۲۴/ ایکڑ کھیتی باڑی زمین اور تقریباً 36000 اسکوائر فٹ زمین کا پلاٹ جس میں چھوٹا سا گھر بھی تھا۔ میرے دادا نے مرنے سے پہلے اپنی پراپرٹی کو اپنی اولادوں میں اس طرح تقسیم کرکے کھیتی باڑی زمین میں ۵/ لڑکے اور ۲/ لڑکیوں کو 2:1 کے حساب سے حصہ دیا۔ لیکن پلاٹ میں صرف لڑکوں کو ہی حصہ دیا اور لڑکیوں کو نہیں۔ (میرے دادا کے ۶/ لڑکے تھے جس میں سے ایک کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا اور ۲/ لڑکیاں تھیں)۔ میں نے اب کچھ علماء سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ: کیونکہ دادا جی نے مرنے سے پہلے تقسیم کیا تھا اور پراپرٹی اپنے لڑکوں کے نام پر ٹرانسفر کر دیا تھا اس لیے اوپن پلاٹ (open plot) میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ دوسرے عالم نے کہا کہ ایک صحابی نے اپنے غلام کو صرف ایک اولاد کے حوالے کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ناراض ہو گئے تھے۔ برائے مہربانی، بتائیں کہ کیا یہ تقسیم صحیح تھی؟ اور اگر نہیں! تو براہ کرم، میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا شرعاً میرے والد کو ا ن کی بہنوں کا حصہ اپنے پلاٹ میں سے دینا چاہئے؟

    جواب نمبر: 158787

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:548-530/N=6/1439

    آپ کے دادا نے جس طرح کھیتی باڑی کی زمین تمام اولاد کے درمیان تقسیم کی، اسی طرح انھیں پلاٹ بھی تمام اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیے تھا، پلاٹ میں بیٹیوں کو حصہ نہ دے کر انہوں نے غلط کیا؛

    البتہ اب دادا کے انتقال کے بعد ان کی بیٹیوں کا پلاٹ میں کچھ حصہ ہوتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے لیے عرض ہے کہ اگر آپ کے دادا نے اپنے پانچ با حیات بیٹوں کے درمیان پلاٹ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر قبضہ دخل دیدیا تھا اور خود اس سے مکمل طور پر بے دخل اور دست بردار ہوگئے تھے تو اب ان کی وفات کے بعد پلاٹ میں ان کی بیٹیوں کا حصہ نہ ہوگا۔ اور اگر انہوں نے پلاٹ پر پانچوں بیٹوں کو قبضہ دخل نہیں دیا تھا یا پلاٹ پانچ بیٹوں کے درمیان قابل تقسیم تھا اور ہر ایک کو الگ الگ تقسیم کرکے نہیں دیا تھا تواس صورت میں پلاٹ میں ان کی بیٹیوں کا بھی حصہ شرعی ہوگا؛ کیوں کہ پہلی صورت میں ہبہ تام ہوگیا اور دوسری صورت میں تام نہیں ہوا؛ اس لیے دوسری صورت میں پلاٹ دادا کا ترکہ ہوکر ان کے سب وارثین میں حسب شرع تقسیم ہوگا۔

    اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وشرائط صحتھا فی الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع الخ (المصدر السابق،کتاب الھبة، ۸: ۴۸۹)، وتتم الھبة بالقبض الکامل (المصدر السابق،ص: ۴۹۳)،وتتم الھبة بالقبض الکامل ولو الموھوب شاغلاً لملک الواھب لا مشغولا بہ، والأصل أن الموھوب إن مشغولاً بملک الواھب منع تمامھا وإن شاغلاً لا فلو وھب جراباً فیہ طعام طعام الواھب أو داراً فیھا متاعہ …وسلمھا کذلک لا تصح الخ (المصدر السابق، کتاب الھبة ۸: ۴۹۳، ۴۹۴)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار ۸: ۴۹۶) ۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند