• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 158644

    عنوان: وصیت كی ابتداء اور وارث كے لیے وصیت كا حكم؟

    سوال: سوال: ووصیت کرنا میری معلومات کے مطابق دوسری قوموں سے اسلام میں آیا ہے جیسے ہندو فرقہ، اسلام میں تو وراثت کے کس طرح سے حصے کیے جائے اس بات کا خلاصہ موجود ہے ، بھر بھی ووصیت کی جاتی ہے ۔ برائے مہربانی اس بات کا خلاصہ کریں کہ ووصیت کرنا جائز ہے یا نا جائز ہے ؟ اور ووصیت کرنی چاہیے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 158644

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:646-679/L=7/1439

    وصیت کا ثبوت قرآن وحدیث اجماع اور قیاس سے ہے،قرآن وحدیث سے ثبوت کے بعدوصیت کا سلسلہ دوسری قوموں میں ہونا مضر نہیں ،بہت سے سابقہ امتوں میں موجود احکام مذہبِ اسلام میں باقی رکھے گئے ہیں ،واضح رہے کہ وصیت غیرِ وارث کے لیے ہے ،وارث کا حق تو منجاب اللہ مقرر ہوچکا ہے۔أما الکتاب العزیز فقولہ تعالی :فی آیة المواریث :یوصیکم اللہ فی أولادکم ․․․من بعد وصیة یوصي بہا أودین․․․وأما السنة فما روي أن سعد بن أبي وقاص ۔رضی اللہ عنہ۔ وہو سعد بن مالک کان مریضاً فعادہ رسول اللہ ﷺ فقال یا رسول اللہ!أوصي بجمیع مالي ،قال:لا ․قال فنصف مالي؟قال:لا ․قال فبثلث مالي ؟فقال علیہ السلام :الثلث والثلث کثیر․(بدائع:۱۰/۴۶۹کتاب الوصایاط:دارالکتب العلمیة بیروت)

     نوٹ:وصیت کے حکم کی تفصیل آپ کے دوسرے استفتا میں کردی گئی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند