• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 158460

    عنوان: وصی کا یتیم کے مال سے تجارت کرنا

    سوال: ایک صاحب کے پاس یتیم بچوں کا مال ہے وہ اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس مال میں سے ان پر خرچ بھی کر رہے ہیں جبکہ انکا خیال یہ ہے کہ اس طرح مسلسل خرچ کرنے سے ان بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے پیسے ختم ہو جائیں گے ، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان بچوں کے مال کا کاروبار کیا جائے تاکہ پیسے کچھ بڑھ جائیں حالانکہ کاروبار میں نفع یقینی نہیں ممکن ہے کہ موجودہ رقم ہی ضائع ہوجائے تو کیا ان صاحب کے لئے ان کے مال کا کاروبار کرنا جائز ہوگا اگر جائز ہوگا تو کیا مال ہلاک ہونے کی صورت میں یہ ضامن ہوں گے اور یہ بھی بتائیں کہ اگر وہ کاروبار کریں اور نفع ہو تو کیا وہ خود بھی نفع لے سکتے ہیں یا نہیں؟

    جواب نمبر: 158460

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 532-499/M=5/1439

    جس شخص کے پاس یتیم بچوں کا مال ہے وہ امین ہے اور بچوں کا مال امانت ہے امین (وصی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے مال کو معروف طریقے پر خرچ کرے، مقیم کے مال کو یتیم کے لیے نفع بخش تجارت میں لگانے کی اجازت ہے حدیث میں ہے: ․․․ ألا من ولي یتیمًا لہ مال فلیتجر فیہ ولا یترکہ حتی یأکلہ الصدقة (مشکاة) اگر وصی کی تعدّی کے بغیر رقم ضائع ہوجائے تو اس پر ضمان نہیں اور وصی (ولی) اگر محتاج وضرورت مند ہے تو اپنی محنت وسعی کے بقدر ان کے مال سے اجرت مثل لے سکتا ہے۔ ․․․ وجاز لو اتجر من مال الیتیم للیتیم (درمختار) للمتولي أجر مثل عملہ ․․․ وفي الشامي: وفي الاستحسان: یجوز أن یأکل بالمعروف إذا کان محتاجاً بقدر ما سعی (شامی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند