معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 158041
جواب نمبر: 15804101-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:552-495/H=5/1439
اگر شخص مرحوم نے اپنی وفات کے وقت اپنے والدین میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور ورثہ میں صرف دو بیویوں اور تین بیٹوں ہی کو چھوڑا ہے تو حکم یہ ہے کہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی المیراث شخص مرحوم کا کل مالِ متروکہ اڑتالیس حصوں پر تقسیم کرکے تین-تین (3-3) حصے مرحوم کی دونوں بیویوں کو ملیں گے اور چودہ چودہ (14-14) حصے تینوں بیٹوں میں سے ہرہر بیٹے کو ملیں گے۔
زوجہ = ۳
زوجہ = ۳
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ہمارے نانا نے کھیتی کی ایک زمین اور ایک آبائی مکان جو کہ ان کو ان کے باپ دادا سے وراثت میں ملا تھاچھوڑا۔ ان کے ایک لڑکا اور پانچ لڑکیاں ہیں۔ میں بھائی اور بہنوں کے درمیان موروثی مکان اور زراعتی زمین کو تقسیم کرنے کا طریقہ جاننا چاہتاہوں۔ مزید، اس دولت کے تقسیم کرنے کا کیا طریقہ ہے جو کہ لڑکے کے قبضہ میں ہے، کیوں کہ میرے ناناجنگل کی نوکری سے بہت پہلے ریٹائر ہوچکے تھے اوران کو اچھی پنشن مل رہی تھی۔ نیزان کے آم کے باغات اور زمین سے بھی اچھی رقم حاصل ہورہی تھی جس کو ان کا لڑکا اپنے پاس رکھتاہے۔ میرے نانا کا حال ہی میں انتقال ہوچکا ہے اور ان کا لڑکا(میری ماں کا بھائی) اپنی بہنوں کو والد کی جائداد (زراعتی زمین اور مکان) میں سے کچھ دینے پرکوئی دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کو اس جائداد کی صحیح تقسیم بتانا چاہتا ہوں۔ اوراس سلسلہ میں ان کو بتلانے کے لیے آپ سے ایک فتوی کی درخواست کرتاہوں کہ اللہ تعالی کا بتایا ہوا سیدھا راستہ کون ہے؟
2013 مناظراگر بھائی والد کی جائداد ، روپئے، بزنس میں سے اپنی بہن کو ترکہ نہ دے تو کیا وہ مال اس کے لیے حلا ل ہوں گے؟
1435 مناظرزندگی میں میراث تقسیم کرنے کا طریقہ
2755 مناظرمیں
یہ سوال اپنی امی کی طرف سے لکھ رہا ہوں۔ میری والدہ کے والد صاحب کا دسمبر1992میں
انتقال ہوا، انھوں نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں اور چار لڑکے چھوڑے۔ ان میں سے ایک
لڑکی کاانتقال والدین کے انتقال کے بعدہوگیا، اب دو لڑکیاں اور چار لڑکے زندہ
ہیں۔کریم نگر میں مختلف جگہوں پر میرے نانا کے پاس بہت ساری پراپرٹی تھی۔ان کے
انتقال کے بعد ان کی اہلیہ (میری نانی) میرے نانا کی تمام پراپرٹی کی دیکھ بھال
کرنے والی تھیں۔ مئی 2005میں میرے نانا کے انتقال کے بعد میری ماں کے تمام بھائیوں
نے معاہدہ کیا اور پراپرٹی کو چار حصوں میں تقسیم کردیا (۱)آر سی سی بلڈنگ کو دو
چھوٹے بھائیوں نے لے لیااور (۲)اور
دو خالی پلاٹ دو بڑے بھائیوں نے لے لیا بغیر میری ماں کی رضامندی کے۔ جب میری ماں
نے پوچھا کہ میرا حصہ کہا ں ہے تو ان کے جواب یہ تھے کہ [والد کی پراپرٹی میں
لڑکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے اور جب میری ماں مسلم قانون کے مطابق کہتی ہے تو
وہ کہتے ہیں کہ ...
اپنی
کمائی سے والدہ کے لیے گھر بنایا، کیا وہ مالک ہوگئیں؟
باپ
اگر یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد میری لڑکیوں میں سے ہر ایک کو پچاس پچاس ہزار
دینا اور باقی کا لڑکوں کے لیے ہے تو اس صورت میں باپ کے انتقال کے بعد کیا دو
بارہ وراثت تقسیم کرنی پڑے گی؟
ایک بیوی اور ایک بیٹی کے درمیان تقسیم وراثت
3863 مناظرمیرے والد صاحب کی دو بیویاں تھیں۔انھوں نے اپنی پہلی بیوی سے 1960میں شادی کی ان سے تین لڑکے ہیں۔ انھوں نے دوسری شادی 1964میں کی اور ان سے دو لڑکے او رایک لڑکی ہے۔وہ اپنی دوسری بیوی کو 1964میں لند ن لائے او راپنی موت 2006تک اس کے ساتھ مسلسل وہیں رہے۔پہلی بیوی پاکستان میں 1993تک رہی اور اس کے بعد سے لندن میں اپنے لڑکے کے ساتھ رہتی ہیں۔میرے والد صاحب نے مالی طور پر اپنی پہلی بیوی کاتعاون کیا، اس کے لڑکوں کا ان کی شادی کے اخراجات اور ان کی تعلیم کا انتظام کیا، ان کے مکان کو خریدنے کے لیے پیسہ دیا اپنی پہلی بیوی کو حج کرایا، اور اس کی اسٹیٹ پینشن کا انتظام کیا وغیرہ۔ میرے والد صاحب ایک پراپرٹی ڈیلر تھے اور انھوں نے اپنا کاروبار 1972میں شروع کیا۔ انھوں نے خود ہی اپنی آفس خریدی اور وہاں سے اپنا کام شروع کیا۔ 1988میں انھوں نے میرے حقیقی بھائی کو اپنے ساتھ کاممیں لگایا اور اس کے بعد 1991میں میں نے بھی کاروبار میں شرکت کی۔ہم اپنے والد صاحب کی موت 2006تک تین پارٹر ہوچکے تھے او رہم میں کے تمام ایک متعین تنخواہ پر کام کررہے تھے۔اپنی زندگی میں انھوں نے تقریباً چودہ پراپرٹی خریدی بطور سرمایہ کاری کے۔ کچھ تو میرے او رمیرے بھائی کے اس کاروبار میں شریک ہونے سے پہلے خریدی گئی تھیں۔ 1994میں میرے والد صاحب نے اپنی آخری وصیت لکھی یہ کہتے ہوئے کہ میری ماں او رمیں ان کیجائداد و املاک کے شیئر کے ٹرسٹی رہیں گے۔چونکہ تمام پراپرٹی کاروبار کا حصہ ہیں اس لیے ان کا حصہ پارٹنر کے درمیان ایک تہائی تھا او ردوسرے تہائی میرے بھائی اور میرے سے تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی وصیت میں اپنی پہلی بیوی یا اس کے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ اپنی بیماری کے دوران انھوں نے اپنی وصیت کا کسی سے بھی تذکرہ نہیں کیا اور گھر کے کسی افراد نے بھی ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔مختلف وجوہات کی بناء پر میرے والد صاحب اپنی پہلی بیوی اور اس کے لڑکوں سے خوش نہیں تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہنا پسند کیا 1964سے۔میرے سوتیلے بھائی کاروبار کا حصہ نہیں رہے ہیں اور 35سال سے اس میں کوئی کام نہیں کیا ہے۔ میرے والد صاحب کا اثاثہ وارثوں کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے گا اور ان کی وہ وصیت جو کہ انھوں نے 1994میں کی وہ درست ہے۔ میں اس معاملہ میں آپ کی مخلصانہ رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔ برائے کرم آپ شریعت کے مطابق اس مسئلہ کو حل کردیں۔
4402 مناظر