• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 157742

    عنوان: زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کس تناسب سے ہونی چاہیے؟

    سوال: حضرت، میرا سوال یہ ہے کہ میراث جیسے گھر ، دوکانیں، باغ اور کھیتی کی زمین وغیرہ میں والد صاحب اپنی زندگی میں بٹوارہ کرتے ہیں، تو کیا اس میں بیٹیوں کا حق ایک تہائی (1/3) بنتا ہے یا برابر برابر ؟ وضاحت فرمادیں۔

    جواب نمبر: 157742

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:481-363/sn=4/1439

    زندگی میں تقسیمِ جائداد میراث کی تقسیم نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ ”ہبہ“ ہے، زندگی میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں بہتر یہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کو برابر برابر دے، گو یہ بھی جائز ہے کہ میراث کے ضابطے کے مطابق (یعنی بیٹے کو بیٹی کا دوگنا) تقسیم کرے، یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ”ہبہ“ اسی وقت تام ہوتا ہے جب واہب (ہبہ کرنے والا) موہوب لہ (جس کوہبہ کیا جائے) کو مکمل طور پر قبضہ دخل بھی دیدے؛ اس لیے باپ مذکورہ بالا طریقوں میں سے جس کے مطابق بھی تقسیم کرے اسے چاہیے کہ ہرایک کا حصہ الگ کرکے اس کے قبضہ دخل میں بھی دیدے ورنہ ہبہ تام نہ ہوگا اور نہ اولاد اس کی مالک ہوگی۔ لا بأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبة ․․․ وکذا فی العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصدہ فسوی بینہم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیہ الفتوی، وقال الشامي: قولہ ”وعلیہ الفتوی“ أي قول أبی یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي ہو قول محمد․ (درمختار مع الشامي: ۸/ ۵۰۳، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند