• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 157722

    عنوان: اپنی پروپرٹی تقسیم کرکے بچوں کو قبضہ دیئے بغیر ڈائری درج کردینا؟

    سوال: حضرت آج سے تقریباً ڈیڑھ مہینے قبل میں نے میراث و وصیت کی تقسیم کو لیکر ایک فتوی مانگا تھا،اس کا جواب تو مل گیا پر شریعت کے حساب سے کس طرح تقسیم ہو اور ہبہ کی ہوئی رقم کو جو والد مرحوم اپنی ڈائری میں قلم بند کر نے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، پر اس ہبہ کی ہوئی رقم کا کسی کو بھی مالکانہ حق نہیں ملا جو کہ والد صاحب نے ہم دو بھائی اور دو بہنوں کو دی تھی،اور اس رقم کی زکات والد صاحب نے ہم لوگوں کے ذمے کی تھی اس کا شریعت کیا حکم دیتی ہے ؟ والدہ ابھی حیات ہیں،بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ سوال کا جواب دیں اور شرعی لحاظ سے تقسیم کا طریقا بتائیں ۔بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ میرے پچھلے سوال پر بھی غور کریں۔ شکریہ. Question # : 155946India (۱) میرا سوال میرے والد صاحب مرحوم کی میراث اور وراثت سے تعلق رکھتا ہے ، پانچ مہینے قبل رمضان مبارک کے پہلے عشرے میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا،انتقال سے کچھ مہینے قبل انہوں نے جو ان کی موجودہ سیونگ تھی اس کو والد صاحب مرحوم نے ہم چار بھائی بہنوں کے بیچ تقسیم کر دیا اور یہ کہا کہ بچی ہوئی رقم میری ولدہ محترمہ اور ان کی ہے اور اس رقم سے وہ لوگ عمرہ کرنے جای ئیں گے ،جو رقم والد صاحب مرحوم نے ہم ۲بھائی اور ۲بہنوں کے بیچ تقسیم کی تھی وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آئی لیکن ان سارے معاملے کو انہوں نے اپنی ڈائری میں تاریخ کے ساتھ قلم بند کر دیا تھا،اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس رقم کی زکات جو کہ ہم بھائی بہنوں کے بیچ تقسیم ہوئی ہے وہ ہم لوگوں کو دینی ہے ،تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شریعت اس طرح کے معاملوں میں کیا حکم دیتی ہے ؟اور میراث کی تقسیم کی کیا شرط اور شکل ہے جس سے کہ مکمّل انصاف ہو سکے اور کسی بھی طرح کی آپس میں بدگمانی نہ ہو۔ میری والدہ کی پنشن آتی ہے ، کونکہ میرے والد صاحب سرکاری ملازم تھے ،ہم چار بھائی بہن ہیں۔(۲ بھائی اور ۲بہن) میں قطعی نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرح کی حق تلفی ہو جس سے کہ خدا کے یہاں ہماری پکڑ نہ ہو اور والد صاحب مرحوم کی روح کو تکلیف نہ ہو۔ (۲) دوسری چیز، ہمارے کیا حقوق ہیں ہماری والدہ کے لیے اور ہم ان کو کیسے خوش رکھیں؟ شکریہ

    جواب نمبر: 157722

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:481-441/B=4/1439

    حالت حیات میں باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے وہ ہبہ کہلاتا ہے، ہبہ جب ہی صحیح ہوتا ہے جب کہ اولاد کے درمیان حصوں کی تقسیم کرکے اولاد کو ان حصوں کا مالک وقابض بنادے اور خود اس سے دست بردار ہوجائے، صورت مذکورہ میں ا یسا نہیں ہے یعنی والد صاحب نے اپنی حیات میں اپنی اولاد کو سیونگ رقم ان کے قبضہ اور ملکیت میں نہیں دی بلکہ صرف ڈائری میں لکھ دی، اس لیے یہ ہبہ صحیح نہیں ہوا۔ اب والد صاحب کا انتقال ہوگیا تو وہ رقم والد مرحوم کا ترکہ بن گئی، اب میراث کے اصول کے مطابق تمام جائز ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگی، پوری سیونگ رقم از روئے شرع ۴۸/ سہام پر تقسیم ہوگی جن میں سے آپ کی والدہ کو آٹھواں حصہ یعنی ۶/ سہام اور دونوں بھائیوں کو ۱۴-۱۴/ سہام، اور دونوں بہنوں کو ۷-۷/ سہام لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ کے مطابق ملیں گے۔ شرعی تقسیم کا نقشہ حسب ذیل ہے۔ اس رقم کی زکاة آپ ہی لوگ نکالیں گے۔

    زوجہ = ۶

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    جو پنشن مل رہی ہے وہ والدہ لیتی رہیں گی، بوڑھی والدہ کی خوب خدمت کریں ان شاء اللہ آپ لوگ دنیا میں پھلیں گے پھولیں گے، ترقی کریں گے۔ ہمیشہ والدہ کو خوش رکھیں، ان سے مشورہ لے کر کام کریں۔ اپنی آواز کو ان کی آواز پر بلند نہ کریں، ان کا بہت زیادہ ادب واحترام کریں، یہ آپ کی سعادت مندی ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند