• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 157302

    عنوان: ترکہ کی تقسیم سے متعلق متفرق مسائل

    سوال: ۱۸ سال پہلے ایک شخص کا انتقال ہوگیاہے، پسماندگان میں بیوی ، سات بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، اور اس وقت اس کی بیوی، سات بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں حیات ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ : (۱) مذکورہ بالا پسماندگان کے درمیان مرحوم کی جائیداد کی تقسیم کیسے کی جائے گی؟ (۲ )اس کے انتقال کے وقت صرف ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کی شادی ہوئی تھی، اور اب تک دو بیٹے غیر شادی شدہ ہیں، تو کیا اس سے تقسیم واراثت میں کوئی اثر پڑے گا؟میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا ان کی شادی کا خرچ جائیداد سے منہا کرکے پھر جائیداد کی تقسیم کی جانی چاہئے؟ (۳) کیا بڑے بیٹے کو سب سے زیادہ حصہ ملنا چاہئے؟ کیوں کہ وہ گھر کے بڑے ہونے کے ناطے گھر میں سب کا خیال رکھا ہے۔ (۴) اگر بیٹوں اور والدہ نے تمام بیٹیوں اور بیٹیوں سے اجازت لیے بغیر کچھ جائیداد بیچ دی ہیں(کیوں کہ جائیداد میں سب کا حق ہے)، تو اس کا کیا حل ہے؟کیوں کہ جائیداد کی تقسیم برابری سے نہیں ہوئی ہے اور کچھ لوگوں نے اس کا استعمال کرلیا ہے۔ براہ کرم، شریعت کی روشنی میں جواب دیں۔

    جواب نمبر: 157302

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:430-383/L=4/1439

    صورتِ مسئولہ میں مرحوم کا تمام ترکہ بعد ادائے حقوقِ مقدمہ علی المیراث ۱۴۴/حصوں میں منقسم ہوکر ۱۸/حصے بیوی کو ۱۴/۱۴/حصے ساتوں لڑکوں میں سے ہر ایک کواور ۷/۷/حصے چاروں لڑکیوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔

    مسئلے کی تخریجِ شرعی درج ذیل ہے:

    بیوی = ۱۸

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکا = ۱۴

    لڑکی = ۷

    لڑکی = ۷

    لڑکی = ۷

    لڑکی = ۷

    (۲) دیگر اولادکی شادی کے اخراجات کومنہا کیے بغیر ترکے کی تقسیم کی جائے گی ،جن کی شادی والد صاحب نے کردی تھی اتنی رقم کو منہا کرنے کا حکم نہیں ہے۔

    (۳) بڑے بیٹے کو بھی دیگر بیٹوں کی طرح ایک بیٹے کا حصہ ملے گا ،بڑے بیٹے ہونے کے ناطے اس کا حصہ دیگر بیٹوں سے زائد نہ ہوگا۔

    (۴) اس کا حل یہ ہے کہ اس جائیداد میں جتنا حصہ ان کا بنتا ہو اتنا حصہ ان کو دیدیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند