• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 156378

    عنوان: چند وارثین کا مطالبہ یہ ہے کہ قیمت آج کی مارکیٹ کے حساب سے دی جائے ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں؟ مسئلہ وراثت اور اس سے متعلق معاملات کا ہے ۔ وارثین میں میری والدہ، ایک بہن اور مجھ سمیت پانچ بھائی ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ یہ گھر میرے والد صاحب رحمہ اللہ کی ملکیت تھا۔ اسے ان کے انتقال کے چند سال بعد وراثت کی تقسیم کے لئے فروخت کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ گھر آج سے دو سال پہلے فروخت ہوچکا تھا۔ ایگریمینٹ پر سب ہی وارثین نے اپنے اپنے دستخت کئے تھے اور جو قانونی دستاویزات درکار ہوتے ہیں (مثلاً شناختی کارڈ کی کاپی، دستخط، تصویریں، وغیرہ) وہ سب نے جمع کروائے تھے ۔ فروخت کے وقت خریدار نے پوری رقم کی ادائیگی کے لئے ۳ ماہ کا وقت مانگا تھا جو ہمارے اسرار کی وجہ سے ۶ ماہ کر دیا گیا تھا۔ یہ گھر ۶۰۰ گز پر تعمیر ہے ۔ اس کے بیرونی حصّے میں ۴ دکانیں ہیں جو مہانہ کرائے پر ہیں۔ گراؤنڈ پلس ٹُو کی تعمیر ہے ۔ نیچے کی منزل پر دو بھائی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اسکا گاڑی کھڑی کرنے کا گیراج چھوٹے بھائی کے کاروباری معاملات میں زیرِ استعمال ہے ۔ پہلی منزل بڑے بھائی کے کاروباری معاملات میں زیرِ استعمال ہے ۔ اور دوسری منزل کے آدھے حصے پر چھوٹا بھائی رہتا ہے ۔ اور اسکا آدھا حصہ کرائے پر ہے ۔ جسکا کرایا آدھا بہن اور آدھا چھوٹا بھائی لیتے ہیں جن کی اس منزل پر رہائش ہے ۔ باقی دو بھائی اور بہن اس گھر میں نہیں رہتے ۔ یہ گھر دو سال پہلے فروخت ہوا۔ اس گھر پر گزشتہ ۲۰ سال سے ایک کیس دائر تھا جو ۲ سال پہلے جب گھر فروخت ہوا تو اس کے بیانے کی آدھی رقم سے ختم ہوا تھا۔ اور آدھا بیانہ وارثین میں تقسیم ہوا۔ دیگر اخراجات کے لئے بیانے کا ایک حصہ مقرر کیا گیا۔ سوال کچھ یوں ہے کہ جیسا کہ یہ گھر آج سے تقریباً دو سال قبل فروخت ہوچکا ہے ، اور گھر خالی کرنے کا مقررہ وقت بھی گزر چکا، اور بیانے کی رقم بھی وصول کرکے خرچ کردی گئی۔ اور بیانہ واآپسی کرنے کی بھی کوئی سعی نہیں ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت کی مارکیٹ کے حساب سے قیمت بلکل مناسب طے ہوئی تھی۔ ۱۔ تو کیا آج دو سال کا عرصہ گزارنے کے بعد چند وارثین کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ قیمت آج کی مارکیٹ کے حساب سے دی جائے ؟ ۲۔ مقررہ وقت پر گھر کو خالی نہ کرنا، اور مزید اس سے فائدہ اٹھانا (رہائش اور کرائے کی صورت میں) جائز ہے ؟ مزید یہ کہ اس خریدار نے پھر سے کورٹ میں فراڈ کا کیس بھی کردیا۔ کہ گھر بھی خالی نہ ہوا اور بیانہ بھی وصول کرلیا گیا۔ شرعی طور پر اس میں کون گناہگار ہے ؟ واضح فرمادیں۔

    جواب نمبر: 156378

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:196-212/D=4/1439

    (۱) صورت مسئولہ میں اگر دو سال پہلے گھر کی فروختگی کا معاملہ مکمل ہوچکا یعنی مارکیٹ ریٹ کے حساب سے پوری رقم کی تعیین اور ایجاب وقبول ہوکر بیعانہ کی ادائیگی ہوگئی تو اب بیعانہ کی رقم کے علاوہ جو رقم باقی ہے ورثاء کو اسی کے مطالبہ کا حق ہے، موجودہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے قیمت کا مطالبہ جائز نہیں۔

    (۲) مقررہ وقت پر گھر خالی کرکے خریدار کے قبضہ میں دینا ضروری ہے اور خریدار کی اجازت کے بغیر مقررہ وقت سے زائد گھر میں رہنا جائز نہیں۔ نیز واضح رہے کہ مقررہ وقت (یعنی چھ ماہ) کے بعد اگر گھر کا کوئی حصہ کرائے پر دیا گیا ہے، تو کرائے کی رقم کا مالک خریدار ہوگا، ورثاء کے لیے اس کا لینا جائز نہیں۔

    قولہ: والثمن المسمی قدرہ لا وصفہ ینصرف مطلقہ إلی غالب نقد البلد أي بلد العق،د مجمع الفتاوی لأنہ المتعارف، وفي الشامیة: فإنہ قال معزیا إلی بیوع الخزانة: باع عینا من رجل بأصفہان بکذا من الدنانیر فلم ینقد الثمن حتی وجد المشتری ببخاری یجب علیہ الثمن بعیار أصفہان، فیعتبر مکان العقد. قلت: وتظہر ثمرة ذلک إذا کانت مالیة الدینار مختلفة فی البلدین، وتوافق العاقدان علی أخذ قیمة الدینار لفقدہ أو کسادہ فی البلدة الأخری، فلیس للبائع أن یلزمہ بأخذ قیمتہ التی فی بخاری إذا کانت أکثر من قیمتہ التی فی أصبہان وکما یعتبر مکان العقد یعتبر زمنہ أیضا کما یفہم ․․․․ فلا یعتبر زمن الإیفاء إلخ․ (الدر مع الرد: ۷/۵۹، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند