معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 153195
جواب نمبر: 153195
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1214-1157/sn=11/1438
(الف) والد، والدہ اپنی زندگی میں گو اپنی جائداد کے تنہا مالک ہوتے ہیں، اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن پھر بھی اگر وہ اپنی زندگی میں اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو انھیں چاہیے کہ تمام اولادوں خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب کا خیال رکھیں، بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا اچھا نہیں ہے، اگر اس کا مقصد بعض بچوں کو ”محروم“ کرنا اور انھیں ضرر پہنچانا ہو تب تو ناجائز اور بڑا گناہ ہے۔ آپ کے والد نے صرف بڑے بیٹے کو سارا پیسہ دے کر اچھا نہیں کیا، انھیں چاہیے تھا کہ تمام بچوں کو دیتے بہرحال والد نے اگر بڑے بیٹے کو مکمل طور پر دیدیا تھا تو بیٹا اس کا مالک ہوگیا، اس میں دیگر اولاد کا اب کوئی حق نہیں ہے۔
(ب) آپ کی والدہ کو چاہیے کہ اپنے تمام بچوں کو اس پیسے میں شریک کریں، بڑے بیٹے کو بھی دیں اگرچہ اس نے پہلی دونوں جائدادوں میں کافی کچھ لے چکا ہو؛ البتہ اگر بڑا بیٹا خود کفیل ہو، اس کے پاس اچھا خاصا مال وسرمایہ ہو اور بیٹیاں (آپ لوگ) نسبةً کمزور ہوں تو صورتِ مسئولہ میں وہ سارا پیسہ (جتنا وہ دینا چاہتی ہیں) بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیں اور بیٹے کو نہ دیں یا پھر اکثر بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیں، کچھ بیٹے کو دیدیں، یہی بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند