• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 153158

    عنوان: والد کی دکان سے کمائی ہوئی انکم

    سوال: زید اپنے والد کے ساتھ والد۔کی ہی بنائی اور چلائی ہوئی دکان میں معاون و مددگار ہے ۔ اسی سے اہل خانہ کا خرچ چلتا ہے ۔ گذرتے وقت کے ساتھ زید کے والد دکان میں کام کاج کم کر دیتے ہیں اور سارے معاملات زید کے سپرد کر دیتے ہیں ۔ زید بحسن و خوبی کام سنبھالتا ہے اور اپنے اہل خانہ اور بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ منافع میں سے کچھ رقم الگ جمع کرتا ہے اور اسے دوسری تجارت میں لگاتا ہے ۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس تجارت میں زید کو بہت منافع ہوتا ہے ۔ اب زید کے والد اور دیگر بھائیوں کا یہ کہنا ہے کہ چوں کہ زید نے وہ منافع خاندانی دکان سے کمائے ہوئے مال سے کمایا ہے لہذا اس پر سب کا حق ہے مگر زید کا کہنا ہے کہ چوں کہ اس میں میری تجارتی مہارت کا دخل ہے اس لئے یہ میرا مال ہے ۔ اب اس صورت حال میں والد صاحب کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے منافع میں سے بھائیوں کو حصہ نہیں دوگے تو تمہیں موجودہ وراثت سے حصہ نہیں ملے گا اور تم آبائی مکان میں بھی نہیں رہوگے ۔ اس تمام صورت حال میں شرعی اعتبار سے کس کا موقف صحیح ہے اور زید کو کیا کرنا چاہئے ۔ زید اور اس کے اہل خانہ سب دیندار لوگ ہیں وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی حق تلفی ہو ۔

    جواب نمبر: 153158

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1187-1285/N=12/1438

    صورت مسئولہ میں جب زید کے والد نے دکان اور کاروبار سے متعلق تمام معاملات زید کے سپرد کردیے تو گویا انہوں نے زید کو کاروباری تمام معاملات میں اپنا وکیل بنادیا؛ اس لیے زید نے دکان ہی کی آمدنی سے جو دوسرا کاروبار کیا، وہ شرعاً والد صاحب ہی کا شمار ہوگا، وہ زید کا کاروبار نہ ہوگا؛ البتہ اگر زید والد صاحب سے باقاعدہ اجازت لے کر دکان کی آمدنی سے بہ طور قرض یا بہ طور ہدیہ کچھ رقم لے کر اور ان کے علم میں لاکر اپنا کوئی الگ کاروبار کرتا تو اس صورت میں یہ دوسرا کاروبار اور اس کی آمدنی صرف زید کی ہوتی اور قرض کی صورت میں زید پر صرف قرضہ کی رقم واپس کرنا ضروری ہوتا۔ اور صورت مسئولہ میں یہ بات صحیح ہے کہ دوسرے کاروبار میں زید کی محنت اور اس کی تجارتی مہارت کا بھی دخل ہے؛ لیکن چوں کہ اس نے اس سلسلہ میں والد صاحب سے باقاعدہ تنخواہ یا حصہ داری کا معاملہ نہیں کیا ہے؛ بلکہ سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ کاروبار بھی والد صاحب کے کاروبار کا حصہ ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں زید کی محنت اور تجارتی مہارت محض تبرع شمار ہوگی،البتہ اگر والد صاحب خود اپنی مرضی سے زید کو کچھ دیدیں تو اس میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ بہتر ہے۔

    مستفاد:دفع لابنہ مالا لیتصرف فیہ ففعل وکثر ذلک فمات الأب إن أعطاہ ھبة فالکل لہ وإلا فمیراث وتمامہ في جواھر الفتاوی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸: ۵۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وإلا فمیراث“: بأن دفع إلیہ لیعمل للأب (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند