• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 151755

    عنوان: سوال میں مذكور سامانوں کو ہم کیسے تقسیم کریں؟اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

    سوال: ۲۶ جنوری 2017کو ڈاکٹرمحمد مبشر الاسلام کا انتقال ہوگیا، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، پسماندگان میں(۱) ان کی ایک بیوی ، (۲) ان کاچھوٹا بھائی جس کے یک بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ،(۳) ان کے بڑے بھائی مرحوم (ان کا انتقال 2001میں ہواتھا)کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں،(۴)ان کی بڑی بہن مرحومہ (انتقال 2006)کے دو بیٹے ، (۵) ایک باب شریک بھائی( ۶)دو باب شریک بہنیں ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی والدہ انتقال 1971 ہواتھا اور 1991ء میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ واضح رہے کہ انہوں نے اپنی ززندگی میں کوئی وصیت نہیں کی ہے۔ انتقال کے وقت ڈاکٹر صاحب کی درج ذیل منقولہ اور غیر جائیداد جائیداد تھی؛ (۱) ایک تین منزلہ بلڈنگ،(۲) مشترکہ اکاؤنٹ (جو میاں بیوی کے نام ہے) بینک بیلنس، (۳) کسی کو دیا گیا قرض جو واپس مل گیاہے، (۴) کسی کو دیا گیا قرض جو ابھی واپس نہیں ہوا ہے، (۵) گھریلو سامان، (۶) دینی اور طبی کتابیں اور الآت، (۷) مختلف سامان جن کو وہ استعمال کرتے تھے۔ براہ کرم، بتائیں کہ مذکورہ بالا سامانوں کو ہم کیسے تقسیم کریں؟اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

    جواب نمبر: 151755

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 946-969/sd=10/1438

    بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث و عدم موانع ارث مرحوم ڈاکٹر مبشر الاسلام کا کل ترکہ بشمول بلڈنگ، نقدی،اُن کا مملوکہ گھریلو سامان وغیرہ کل چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جس میں سے ایک حصہ اُن کی بیوی کو اور تین حصے اُن کے باحیات حقیقی بھائی کو ملے گا، باقی ورثاء: بھتیجے ، بھتیجیاں، باب شریک بھائی، باب شریک بہنیں سب محروم ہونگے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند