• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 150217

    عنوان: سوتیلے بھائی بہن ترکہ سے محروم ہوں گے

    سوال: سوال نمبر ۱) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کردے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم کر دے گا۔ (ابن ماجہ) مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں اللہ پاک نے جو قوانین بنادیئے وہ اٹل ہیں۔ اور انہیں توڑنے والا کفر کا کام کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حاجی برات نامی شخص نے دو شادیاں کی تھی، پہلی بیوی سے تین بیٹے (جن میں سے ایک کا انتقال ہوگیاہے ، ایک صاحب اولاد دوسرا بے اولاد ہے )،ایک بیٹی اور دوسری شادی سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بے اولاد شخص نے لے پالک بیٹا لیا اپنے سوتیلے بھاہی سے ۔ بے اولاد شخص فوت ہوچکا ہے ، اس کی بیوی بھی زندہ ہے تو اس کی جائداد شرع وسنت کی رو سے کس طرح تقسیم ہوگی؟ سوال نمبر۲) کیا کسی شخص کیلئے یہ شرعی طور پر جائز ہے کہ وہ اپنے باپ کا نام تبدیل کرے یا لے پالک کو اپنا حقیقی بیٹا بنا لے صرف دنیا کمانے کی خاطر؟ سوال نمبر ۳) جس نے زمین اور جائداد لے پالک کو دی وصیت کے مطابق یا اپنے زندگی میں تو اس شخص نے قرآن اور حدیث کے رو سے کیسا کام کیا؟ سوال نمبر۴) ایک بے اولاد شخص جس کا انتقال نومبر ۲۰۱۳ میں ہوگیا تھا ،کے ۲ سگے بھائی اور ۲ سوتیلے بھائی تھے ۔ اس کا سگا بڑا بھائی ۲۰۰۳ میں وفات پاگیا تھا۔ اس کی ایک بہن اور ایک بیوی بھی زندہ ہیں۔ بے اولاد شخص کا ترکہ چار سال سے تقسیم نہیں ہوا اور فروری ۲۰۱۷ میں اس کا دوسرا سگا بھائی بھی فوت ہوگیا۔ بے اولاد شخص نے لے پالک بیٹا لیا اپنے سوتیلے بھاہی سے ۔ تو اس کی جائداد شرع وسنت کی رو سے کس طرح تقسیم ہوگی؟ سوال نمبر۵) ایک بے اولاد شخص نے لے پالک بیٹا پالاتھا۔ بے اولاد شخص نومبر ۲۰۱۳ میں وفات پاگیا۔ اس کے ۲ سگے بھائی اور ۲ سوتیلے بھائی تھے ۔ اس کا سگا بڑا بھائی ۲۰۰۳ میں وفات پاگیا تھا۔ اس کی ایک بہن اور ایک بیوی بھی زندہ ہیں۔ لے پالک کا اپنا حقیقی باپ بھی زندہ ہے جس نے ابھی تک حقیقی وارثین کونہ جائداد دی ہے اور نہ ہی وصیت نامہ دکھایا۔ اور نہ بے اولاد شخص نے تحریراً اور حلفیاً وارثین کو بتایا۔ لے پالک اور اس کا حقیقی باپ جو بے اولاد شخص کا سوتیلا بھائی بھی ہے پوری جائداد کا وارث بننا چاہتا ہے ۔ تو شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟

    جواب نمبر: 150217

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1037-1161/L=9/1438

    (۱)اگر بے اولا د شخص کی وفات سے پہلے اس کے ایک بھائی کی وفات ہوگئی تھی اور اس کی وفات کے وقت اس کے والدین میں سے کوئی حیات نہ رہا ہو تو مرحوم کا ترکہ مرحوم کے ورثاء کے درمیان اس طور پر تقسیم ہوگا کہ تمام ترکہ بعد ادائے حقوقِ مقدمہ علی المیراث چار حصوں میں منقسم ہوکر ایک حصہ بیوی کو،دو حصے بھائی کو اور ایک حصہ بہن کو مل جائے گا،سوتیلے بھائی بہن ترکہ سے محروم ہوں گے۔

    مسئلہ کی تخریج شرعی درج ذیل ہے:

    بیوی                               =                                                                                       ۱

    بھائی                               =                                                                                       ۲

    بہن                                =                                                                                       ۱

     

    (۲)گود لے لینے سے کوئی بچہ حقیقی بیٹے کے درجہ میں شرعاً نہیں ہوتا ،اس لیے لے پالک کا اپنی ولدیت کی جگہ گود لیے ہوئے شخص کانام لکھوانا جائز نہیں،اسی طرح گود لیے ہوئے شخص کا لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرنا غلط ہے۔ قال اللہ تعالی: ”ادْعُوْہُمْ لِآَبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ“ (احزاب، آیت: ۵)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین لا یقبل منہ صرف ولا عدل متفق علیہ․ (مشکاة شریف: ص۲۳۹)، وقال في روح المعاني (۲۱:۲۲۶): ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب الشخص إلی غیر أبیہ، وعد ذلک بعضہم من الکبائر اھ․

    عن أبي ذررضی اللہ عنہ ، أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: لیس من رجل ادعی لغیر أبیہ، وہو یعلمہ إلا کفر، ومن ادعی مالیس لہ، فلیس منا ولیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح مسلم، باب بیان حال ایمان من رغب عن أبیہ، وہو یعلم، النسخة الہندیة ۱/۵۷، بیت الأفکار رقم:۶۱)

    (۳)اگرمرحوم نے کوئی زمین لے پالک کو وصیت کے مطابق دی ہے اور وہ زمین ترکہ کے ایک ثلث یا اس سے کم ہے تو لے پالک ازروئے وصیت اس زمین کا مالک ہوگا اور اگر وہ زمین ایک ثلث سے زائد ہے تو صرف ایک ثلث میں وصیت کا نفاذ ہوگا،اسی طرح اگر اس نے زمین ہبہ کرکے اس زمین کا مالک وقابض بھی لے پالک کو بنادیا ہوتو وہ اس زمین کا مالک ہوجائے گا؛البتہ اگر دینے والے نے ورثاء کو محروم کرنے کی نیت سے ایسا کیا ہوتو اس کا وبال دینے والے پر ہوگا۔

    (۴) ترکہ کی تقسیم پہلے سوال میں کردی گئی ہے؛البتہ جس سگے بھائی کی وفات بعد میں ہوئی ہے اس کو ملنے والے حصے کو اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

    (۵)صورت مسئولہ میں اس بے اولاد شخص کا ترکہ ان کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے لے پالک اور اس کے والد کا پوری جائیداد پر قابض ہونا ناجائز،ظلم وزیادتی ہے،اس سے باز رہنا ضروری ہے،البتہ اگر مرحوم نے کوئی چیز لے پالک کو زندگی میں دے دی ہو تو وہ اس کا مالک ہوگا،اسی طرح اگر کسی چیز کی وصیت لے پالک کے حق میں کی ہو اور وہ ترکہ کے ایک ثلث سے کم ہو تو وہ اس کا مالک ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند