Pakistan
سوال # 149558
Published on: Mar 15, 2017
جواب # 149558
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 564-508/N=6/1438
اگر کسی مرحوم نے اپنے وارثین میں صرف ایک بیوی اور چار بیٹیاں چھوڑیں، ان کے علاوہ کوئی عصبہ یا غیر عصبہ وارث نہیں چھوڑا، جیسے: بیٹا،ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی ، بھائی ، بھتیجا، چچا اور چچا زاد بھائی وغیرہ تو مرحوم کا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۳۲/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے بیوہ کو ۴/ حصے اور چار بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو (بہ طور فرض اور رد) ۷، ۷/ حصے ملیں گے۔ تخریج مسئلہ حسب ذیل ہے:
زوجة = ۴
بنت = ۷
بنت = ۷
بنت = ۷
بنت = ۷
-------------------------------------
کل حصے ۳۲
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
میرے مرحوم دادا جو ہندستان کے رہنے والے تھے ،نے اپنے تین بیٹوں کے لیے وررثہ میں ایک پلاٹ چھوڑا تھا ۔ تین بیٹوں میں سے دو کا انتقال ہوگیا ہے، دونون مسلمان تھے۔ ا ب ایک ہی بیٹاہے جو عیسائی ہے یا کافر ۔ سوال یہ ہے کہ ان تینوں بیٹوں ( دو مرحوم مسلمان بیٹے اور ایک غیر مسلم بیٹاجو چرچ جاتاہے اور حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتاہے ) کے درمیان پلاٹ کی تقسیم کیسے ہوگی؟ بر اہ کرم، جلدجواب دیں۔
میرا بھتیجا جائداد میں اپنے والد کے حق وراثت کا دعوی کررہا ہے۔ میں اس سے متعلق مختصراً واقعات پیش کررہا ہوں کہ آپ اس کی روشنی میں اسلامی نقطہء نظر واضح فرمائیں۔
تقسیم جائداد کے سلسلے میں رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے دادا نے انڈیا سے ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی۔ ہندوستان کی جائداد کی دعوی میں ہمارے چچا نے جائداد کا دعوی کیا اور پاکستان میں انھیں ایک مکان مل گیا۔ یہ کل پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ تمام بہنیں اچھی حالت میں ہیں جب کہ سارے بھائی تنگدستی میں ہیں۔ اس جائداد کو1,200,000 روپئے میں فروخت کیا گیا۔ اس جائداد کو فروخت کیے جانے سے قبل ہر بہن جائداد سے اپنے اصل حصے سے پندرہ ہزار روپئے کم لینے پر راضی تھی، لیکن چوں کہ کچھ بھائی اسی گھر میں مقیم ہیں اور گھر کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس صورت حال میں ثالثی (جو ایک اثر دار گھرانے سے ہیں) نے خود ہی فیصلہ کیا ہے کہ ہر بہن کے حصے سے تیس ہزار کاٹ لیں گے اور اسے بھائیوں میں تقسیم کردیں گے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں فتوی عنایت فرمائیں کہ کیا یہ فیصلہ درست ہے ؟ اگر نہیں تو آپ اس کا کیا حل پیش فرمائیں گے؟
زید کا انتقال ہوا ، پسماندگان میں ایک بیوی ، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ تقسیم وراثت کس طرح کی جائے گی؟
اگر دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والدین اپنے بچوں کے درمیان دولت اور زمین کی تقسیم میں امتیازی سلوک کریں اور بیٹے کو (جو کہ زندہ ہو) بہت ہی کم حصہ دیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ گناہ نہیں ہے؟ والدین کو عذاب خداوندی سے بچانے کے لیے بچوں کو کیا کرنا چاہیے؟ (2) اگر وہ (بچے) سارے اثاثے کو دوبارہ ممکنہ حد تک باہم مساوی طورپر تقسیم کرلیں تو کیا اس سے والدین عذاب الہی سے محفوظ ہوجائیں گے؟ (3) کیا اولاد کے اس عمل سے ان کو ثواب ملے گا؟
اگر بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہو جائے تو کیا اس کی اولاد کا دادا کی وراثت میں کوئی حصہ ہے؟ بیٹے کی جائداد میں والدین کا کیا حصہ ہے؟
میراسوال یہ ہے کہ میرے رشتہ داروں میں ایک فیملی ہے ، اس فیملی میں باپ، ماں ، دوبیٹے اوردو بیٹیاں ہیں ، 400 گز کی جائداد ماں کے نام ہے اور 600 گز باپ کے نام ، براہ کرم، بچوں میں تقسیم جائداد کا حل بتائیں۔
ہم نے انڈیا سے ہجرت کی تھی۔ یہاں پاکستان میں ہمیں ایک گھر الاٹ کیا گیا۔ ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ والد اور والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہم نے پرانا گھر بتیس ہزار میں بیچا۔ اس رقم کو ہم آپس میں کیسے تقسیم کریں؟
بچہ گود لینے کے سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اس کے فوائد ونقصانات اور قانونی حیثیت سے بھی آگاہ فرمائیں۔