• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 148576

    عنوان: ایک مکان دے کر باقی تمام زمین و جائداد اپنے قبضے میں لے لینا ؟

    سوال: بدھ، 18 جنوری، 2017\دارالافتاء ہندستان،سوال یہ ہے کہ ہمارے نانا نے استعمال کی کچھ جائداد ترکے میں چھوڑی۔اور نانا کے ورثاء میں صرف ان کی تین اولادیں تھیں۔ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔بیٹے نے نانا کی جائدادشریعت کے مطابق تقسیم کرنے کے بجائے ساری کی ساری جائداد اپنے قبضے میں لے لی۔البتہ ایک بہن (میری والدہ) کے انتقال سے پہلے ایک مکان دیا۔اور اس کے کاغذات دینے کا وعدہ کیا۔لیکن اپنے انتقال کے وقت تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔اور ان کی اولاد مکان کے کاغذات دینے سے منکر ہیں۔ہماری خالہ کا بھی انتقال ہو چکا ہے ، ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔اور ان کی خُلع ہوگئی تھی انتقال سے پہلے ۔اور ان کے سابقہ شوہر کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ اب سوالات یہ ہیں کہ:(۱) کیا ہم اپنی والدہ کی وصیت کے مطابق والدہ کا شرعی حق کا تقاضا کرسکتے ہیں؟ (۲) کیا ماموں کا یہ عمل کے ایک مکان دے کر باقی تمام زمین و جائداد اپنے قبضے میں لے لینا درست ہے ؟ (۳) ماموں کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ انتقال سے پہلے ماموں نے کہا تھا یہ مکان ہم سے لے کر ان کو ایک دوسرا مکان دے دینا۔(جو انتہائی چھوٹا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے )،ہمارے مکان جس میں ہم رہتے ہیں یہ آبادی میں ہے اور ماموں نے مرنے سے پہلے تک فون پر کہتے رہے کہ میں کراچی آکر مکان کے کاغذات دوں گا انتقال تک وہ کہتے رہے ۔ماموں کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے دوسرے مکان کی وصیت کی تھی۔لیکن اس وصیت کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ان کے پاس۔کیا یہ بات معتبر ہوگی؟ (۴) کیا والدہ کے انتقال کے بعد ہمارے لیے والدہ کا حصہ میراث کا مطالبہ کرنا جائز ہے ؟جبکہ والدہ نے حصہ معاف بھی نہیں کیا۔ (۵) ہماری خالہ کی خلع ہوگئی تھی،ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔بعد میں ان کے سابقہ شوہر کا بھی۔اب ان کے حصے کا کیا ہوگا؟براہ کرم جواب عنایت فرما دیں۔

    جواب نمبر: 148576

    بسم الله الرحمن الرحيم

    418-1381/Sd=1/1439Fatwa:

    صورت مسئولہ میں اگر آپ کے نانا کے انتقال کے وقت اُن کے ورثاء میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں، تواُن کی متروکہ جائدادیں کل چار حصوں میں تقسیم ہونگی ، جس میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملے گا، بیٹے ( آپ کے ماموں ) کے لیے بہنوں کا حصہ نہ دے کر غصب کرنا سخت ناجائز و حرام تھا، اگر بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے ، تو اُس کی اولاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے دادا کا ترکہ شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرے ، اس سلسلے میں ماموں کی وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، والدہ کے انتقال کے بعد اُن کا شرعی حصہ اُن کے ورثاء کی طرف منتقل ہوگیا، لہذا آپ اپنی والدہ کے شرعی حصہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور خالہ کا شرعی حصہ اُن کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا،اگر اُن کی اولاد نہیں ہے ، تو اُن کا حصہ بھائی اور بہن کی اولاد کے درمیان حسب حصص شرعی تقسیم ہوگا، ہر ایک کے حصہ کی تعیین ورثاء کی مکمل تفصیل معلوم ہونے کے بعد ہی کی جاسکتی ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند