معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 146788
جواب نمبر: 146788
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 454-425/Sn=5/1438
اگر آپ کے دادا، دادی میں سے کوئی باحیات نہیں ہے، نیز والد کے انتقال کے وقت آپ تمام بھائی نہیں اور والدہ باحیات ہوں اور کسی شرعی وارث کا اضافہ نہ ہو تو صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد کا تمام متروکہ مال بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث کل ۱۳۶/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۷/ حصے آپ کی والدہ کو، ۱۴-۱۴/ حصے آپ سات بھائیوں میں سے ہرایک کو اور ۷-۷/ حصے آپ کی تینوں بہنوں میں سے ہرایک کو ملیں گے۔
زوجہ = ۱۷
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
ابن = ۱۴
بنت = ۷
بنت = ۷
بنت = ۷
----------------------------
۱۳۶
(۲) جی ہاں! آپ کی والدہ کو جتنا حصہ ملے گا وہ اسے راہِ خدا میں وقف کرکے اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذمے دار بناسکتی ہے کہ اس کی آمدنی مسجد، مدارس اور غریبوں کو ہمیشہ دیتا رہے؛ لیکن بہتر ہے کہ اپنا پورا حصہ وقف کرنے کے بہ جائے صرف ایک تہائی حصہ وقف کریں، مابقیہ اپنے ورثاء کے لیے چھوڑیں۔ یستفاد ما جاء في الحدیث النبوي: من سعد بن أبي وقاص قال عادني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأنا مریض، فقال: أوصیت، قُلتُ نعم، قال: بکم؟ قلت ما لي کلہ في سبیل اللہ، قال: فما ترکت لولدک، قلت ہم أغنیاء بخیر، فقال: أوص بالعشر، فما زلت أناقصہ حتی قال: أوصِ بالثلث والثلث کثیر․ (ترمذي رقم: ۹۷۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند