• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 14671

    عنوان:

    میری ساس کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں۔ سسر صاحب اب حیات نہیں ہیں۔ میری سسرالی گھر باڑی میری ساس کے نام تھی جو ان کووراثت میں ان کی نانی مرحومہ نے ان کے نام کیا تھا۔ ان کے سبھی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ کچھ دن قبل میرے بڑے سالے نے اپنی ماں سے گھر باڑی کو دونوں بھائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے زبردستی کی جس کی وجہ سے گھر میں رنجشیں پیدا ہوئیں اور دونوں بھائیوں میں تکرار بھی ہوا۔ اسی چیز کو حل کرنے کے لیے دونوں سالوں کیبیویوں نے مجھ سے درخواست کی اور کہا کہ آپ آکر یہ مسئلہ کو حل کردیجئے۔ چونکہ میں گھر کا بڑا داماد ہوں اس لیے مجھے بلایا گیا۔ لیکن میں نے دونوں کی بیویوں کو سمجھایا کہ جب تک آپ دونوں کی ساس باحیات ہیں اس طرح کی تقسیم کرنا اچھا نہیں اور بچے بھی آپ دونوں کے بہت چھوٹے ہیں۔ اس کی بنا پر ان کو بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ آپ دونوں اور آپ دونوں کے شوہر صبر سے کا م لیں اور آپسی تکرار اچھی نہیں ہوتی۔ ....

    سوال:

    میری ساس کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں۔ سسر صاحب اب حیات نہیں ہیں۔ میری سسرالی گھر باڑی میری ساس کے نام تھی جو ان کووراثت میں ان کی نانی مرحومہ نے ان کے نام کیا تھا۔ ان کے سبھی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ کچھ دن قبل میرے بڑے سالے نے اپنی ماں سے گھر باڑی کو دونوں بھائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے زبردستی کی جس کی وجہ سے گھر میں رنجشیں پیدا ہوئیں اور دونوں بھائیوں میں تکرار بھی ہوا۔ اسی چیز کو حل کرنے کے لیے دونوں سالوں کیبیویوں نے مجھ سے درخواست کی اور کہا کہ آپ آکر یہ مسئلہ کو حل کردیجئے۔ چونکہ میں گھر کا بڑا داماد ہوں اس لیے مجھے بلایا گیا۔ لیکن میں نے دونوں کی بیویوں کو سمجھایا کہ جب تک آپ دونوں کی ساس باحیات ہیں اس طرح کی تقسیم کرنا اچھا نہیں اور بچے بھی آپ دونوں کے بہت چھوٹے ہیں۔ اس کی بنا پر ان کو بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ آپ دونوں اور آپ دونوں کے شوہر صبر سے کا م لیں اور آپسی تکرار اچھی نہیں ہوتی۔ ان لوگوں نے کافی اصرار کیا لیکن میں نے نفی میں جواب دیا۔ اسی موضوع کو لے کر میری اہلیہ نے میرے ساتھ رات کو ذکر کیا اور اپنے دونوں بھائیوں کے آپسی تکرار او ران کی اماں سے زمین کی تقسیم کے لیے تکرار کے قصے کو دہرانے لگی۔تو میں نے آزمائشی طور پر اپنی اہلیہ سے کہہ دیا کہ ایک کام کرو کہ تم اپنی اماں کو فون کرو اور ان سے کہہ دو کہ وہ زمین کو دونوں لڑکوں کے نام تقسیم کردیں۔ میری اہلیہ نے مجھ سے دوبارہ پوچھا کہ کیا میں کہہ دوں؟میں نے ہاں بھری۔ کیوں کہ مجھے سسرال والوں کو آزمانا تھا۔ میری اہلیہ نے میری بتائی ہوئی بات کو میری ساس یعنی اپنی اماں سے کہہ دیا۔ میری ساس نے یہ بات جان لینے کے بعد مجھ سے نہ تو کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی مشورہ کیا۔ مگر اپنے دونوں لڑکوں کو وکیل سے مشورہ کرنے کو کہا کہ زمین کی رجسٹری کردی جائے۔ اور دونوں بھائیوں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنی ماں سے زمین کی رجسٹری اپنے نام کروالیا اور اس کی خبر نہ تو میری اہلیہ نے مجھے دی اور نہ ہی میری ساس یا میرے سالوں نے مجھ سے مشورہ کیا۔اور خاص بات یہ ہے یہ تمام باتیں میری اہلیہ کو علم ہونے کے باوجود مجھے اس لیے بتایا نہیں کہیں میں زمین کی رجسٹری میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کروں۔ خیر زمین جو کہ گھر باڑی تھی جس کی قیمت تقریباً پندرہ لاکھ کی ہوگی اس کو میری ساس نے اپنی دونوں بیٹیوں کے حق کو غبن کرتے ہوئے اپنے دونوں لڑکوں کے نام کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے (۱)کیا میری ساس نے جو کچھ کیا یہ قرآن اور حدیث کے مطابق ہوا، او راللہ کے یہاں اس کی کوئی پکڑ نہیں؟(۲)میرے دونوں سالوں نے ہم سے مشورہ کئے بغیر جو چوری چھپے یہ کام کیا کیا وہ دونوں اس زمین جائداد کے مالک بن گئے اور دونوں بہنیں اس پر اپنا حق طلب نہیں کرسکتیں؟ (۳)اور کیا میری ساس اور میرے سالوں نے جو اس طرح کاکام کیا یہ قرآن اور حدیث کے قانون کے مطابق صحیح تھا؟(۴)کیا اس گھر کا داماد ہونے کے ناطے اس زمین جائداد میں جو کہ میرے سالوں نے کیا ہے اس پر میرا کوئی حق نہیں بنتا ہے؟(۵)میری ساس نے جو کیا کیا وہ قیامت کے دن اس کے حساب کتاب سے بری ہوجائیں گیں؟للہ قرآن اور حدیث کی روشنیمیں صحیح رہنمائی کرکے شکریہ کا موقع دیں۔ والسلام

    جواب نمبر: 14671

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1127=208/ل

     

    (۱) آپ کے ساس کا یہ عمل شرعاً درست نہیں، قرآن وحدیث کے خلاف ہے، حدیث شریف میں ہبہ میں اولاد کے درمیان مساوات (برابری) کرنے کا حکم ہے، لڑکوں کو ہبہ کرنا اور لڑکیوں کو محروم کردینا شرعاً گناہ اور ظلم ہے۔

    (۲) اگر آپ کی ساس نے صرف زمین وجائداد ان کے نام کرایا ہے، ہبہ کرکے ان کو مالک وقابض نہیں بنایا ہے تو محض نام کرنے کی وجہ سے وہ اس زمین وجائداد کے مالک نہیں ہوں گے، البتہ اگر ان نام کراکر ان کو مالک وقابض بنادیا ہے تو پھر وہ اس زمین وجائداد کے مالک ہوجائیں گے، اور دونوں بہنیں اپنے بھائیوں پر اپنا حق طلب کرنے کی مجاز نہیں ہوں گی۔

    (۳) آپ کی ساس اور آپ کے سالوں نے جو یہ عمل کیا، یہ قرآن وحدیث کے خلاف تھا۔

    (۴) آپ کا اس زمین وجائداد میں کوئی حق نہیں بنتا ہے۔

    (۵) جی نہیں! بری نہیں ہوسکتیں، البتہ اگر اپنی زندگی ہی میں اس زمین وجائداد کی از سر نو تقسیم کردیں کہ تمام زمین وجائداد کو ۴/ حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ اپنے دونوں لڑکوں اور دونوں بیٹیوں میں سے ہرایک کو دیدیں یا کچھ زائد لڑکوں کو دیدیں یا اس زمین کے عوض دوسری زمین یا چیز لڑکیوں کو دیدیں تو آخرت کے دن حساب سے بچ سکتی ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند